کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 399
(۴) اہل دانش و بینش سے مشورہ کرنے والا
(۵) اور (حق گوئی میں) لوگوں کی ملامت سے بے پروا ہو۔‘‘[1]
ایسا ہی ایک قول قاضی کی صفات کے بارے میں امیرالمومنین خلیفہ راشد ومہدی سیّدنا عمر بن خطاب[2] اور سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما [3] سے بھی مروی ہے جبکہ ان جملہ صفات میں یا اکثر صفات کے شرط ہونے میں ائمہ اربعہ نے بھی سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے قول کی موافقت کی ہے۔[4]
۲۔ واضح مسئلہ میں قاضی فیصلہ صادر کر دے اور مشتبہ مسئلہ کو اہل علم کے حوالے کر دے
کبھی قاضی کے سامنے ایک پیچیدہ مسئلہ بھی آجاتا ہے جو قاضی کو حیرت وپریشانی میں ڈال دیتا ہے، اب ایسے مسئلہ میں قاضی کیا کرے؟ آیا فیصلہ صادر کر دے؟ چاہے حق واضح نہ بھی ہوا ہو، یا اس مسئلہ کو اپنے سے بڑے عالم کے سپرد کر دے؟ اس باب میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک ایسی قرار داد پیش کی ہے اور ایک ایسا حتمی فیصلہ کیا ہے جو قضاء کے صیغہ میں ایک عبرت آموز سبق ہے جس کو قیامت تک کے لیے دستور العمل بنا لینا واجب ہے، وہ یہ کہ قاضی پیش آمدہ مسئلہ میں غور کرے اگر تو اس پر حق واضح ہو جائے تو فیصلہ کر دے وگرنہ اس مقدمہ کو چھوڑے نہیں بلکہ اس میں غور کرنے کے لیے اس کو اپنے سے زیادہ علم والے کے سپرد کر دے۔‘‘[5]
میمون بن مہران جو الجزیرہ کے قاضی اور محکمہ خراج کے افسر اعلیٰ تھے، ان سے روایت ہے کہ انہوں نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو قضاء اور خراج کی وصولی کے منصب کے سخت ہونے کی شکایت کی، تو آپ نے انہیں یہ جواب لکھا: ’’میں اپکو اس بات کا مکلف نہیں بناتا جو آپ کو مشقت میں ڈال دے، آپ خراج میں طیب کو اکٹھا کریں اور جو مسئلہ کھل کر سامنے آجائے اس میں حکم صادر کر دیں اور جو مقدمہ آپ پر مشتبہ ہو جائے اس کو میری طرف بھیج دیجیے! اگر یہ بات ہونے لگے کہ لوگ اس بات کو چھوڑ ہی دیں جو ان پر بھاری ہو تو نہ دین کا امر قائم ہو اور نہ دنیا کا امر ہی قائم ہو۔‘‘[6]
یہ اثر بتلاتا ہے کہ رب تعالیٰ نے علم وفہم میں سب لوگوں کو ایک سا نہیں بنایا بلکہ ان کے مختلف درجات ہیں اس لیے قاضی کو جو لوگوں کے امور کا والی ہے، گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ اس عہدہ کا حق ادا کرنا چاہیے۔ چنانچہ جس مقدمہ کے دلائل و شواہد واضح ہوں اس کا فیصلہ کر دے، اور جو مقدمہ پیچیدہ اور الجھا ہوا ہو اس میں شہر کے اہل علم سے مشاورت کرے۔ اگر وہ بھی اس مسئلہ کا حل نہ بتلا سکیں تو اس مسئلہ کو بڑے علماء یا ولی امر
[1] الطبقات الکبریٰ : ۵/ ۳۶۹۔ ۳۷۰۔
[2] المصنف لعبد الرزاق: ۸/ ۲۹۹۔
[3] المغنی لابن قدامۃ: ۹/ ۳۔
[4] حاشیۃ ابن عابدین: ۴/ ۳۰۵۔
[5] فقہ عمر: ۲/ ۴۸۷۔
[6] الخراج لابی یوسف: ص ۲۴۰۔ ۲۴۱۔