کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 398
ساتویں فصل: سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت میں عدالتی محکمہ اور آپ کے بعض فقہی اجتہادات کا بیان ۱… مقدمات اور شہادتوں کا بیان اس موضوع پر ہم درج ذیل عناوین کے تحت روشنی ڈالتے ہیں: ۱۔ قاضی کی صفات کا بیان (یعنی قاضی کیسا ہو؟) قاضی کے انتخاب میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ از حد دقت نظری اور تدقیق وتحقیق سے کام لیتے تھے۔ تاکہ عوام کسی حق ناشناس اور ظلم پرست قاضی کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔ اسی لیے آپ نے قاضی کے لیے پانچ شرطیں لازم قرار دے دیں اور حکم جاری کر دیا کہ وہی قاضی بنے جو ان شرائط پر پورا اترے گا۔ وہ شرائط یہ ہیں: (۱)علم (۲) حلم (۳) عفت وپاکدامنی (۴) مشاورت (۵) اور حق گوئی کی قوت وطاقت۔‘‘[1] مزاحم بن زفر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں اہل کوفہ کے وفد کے ساتھ جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے ہم سے ہمارے شہر کے احوال دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے امیر اور قاضی کے بارے میں بھی پوچھا۔ پھر فرمایا کہ ’’پانچ صفات ایسی ہیں اگر کسی قاضی میں ان میں سے ایک صفت بھی کم ہو تو یہ اس میں ایک قسم کا عیب اور عار ہے۔ اور وہ صفات یہ ہیں کہ قاضی صاحب فہم وفراست، حلیم و بربار، ارادوں کا مضبوط، عفیف وپاکدامن اور ایسا صاحب علم ہو کہ اس سے نامعلوم باتوں کا سوال کیا جا سکے (اور وہ ان کا جواب بھی دے سکے)۔‘‘ [2] یحییٰ بن سعید روایت کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’کسی شخص کو اس وقت تک قاضی بننا جائز نہیں جب تک اس میں یہ پانچ صفات جمع نہ ہو جائیں: (۱) وہ پاکدامن (۲) حلیم و بردبار (۳) پہلوں کے علوم کا شناسا
[1] فقہ عمر: ۲/ ۲۸۵۔ از دکتور محمد شقیر۔ [2] الطبقات الکبری: ۵/ ۳۶۹۔