کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 396
میں جمع کرا دو۔[1] آپ اپنی ذاتی ضروریات میں بیت المال کی چیزوں کو اور املاکِ موقوفہ کو ہرگز بھی استعمال نہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ امیرِ اردن نے آپ کو سرکاری ڈاک کے ذریعے کھجور کے دو ٹوکرے بھیج دیئے آپ کو یہ بے حد ناگوار گزرا کہ سرکاری جانوروں کو کیوں استعمال کیا گیا۔ چنانچہ آپ نے وہ ساری کھجور بیچ کر اس کی قیمت سے ڈاک کے گھوڑوں کو چارہ کھلا دیا۔[2] اسی طرح ایک مرتبہ آپ نے اپنے ایک عامل کو شہد بھیجنے کو کہا تو اس نے سرکاری ڈاک کے ذریعے وہ شہد بھیج دیا، اس پر آپ نے وہ شہد بیچ کر اس کی قیمت بیت المال میں جمع کرا کے ارشاد فرمایا: ’’تو نے ہم پر اپنا شہد خراب کر دیا۔‘‘[3] ب: ادارتی وانتظامی (یعنی محکمہ جاتی) اخراجات کی اصلاح: ……آپ نے اس بات کی بھرپور کوشش کی کہ آپ کے امراء و والیان مسلمانوں کے اموال میں میانہ روی اختیار کریں۔ چنانچہ جب والی مدینہ نے آپ سے رات کے وقت شمع استعمال کرنے کی اجازت مانگی تو آپ نے اسے یہ جواب لکھ بھیجا ’’میری عمر کی قسم! اے ابن ام حزم! میں تمہیں اس بات کی قسم ہوں دیتا کہ اگر تم تاریک رات میں گھر سے چراغ کے بغیر نکلو گے تو میری عمر کی قسم! اس دن تم پہلے سے بہتر ہو گے۔ تمہیں اپنے گھر سے چراغ کے اتنے فتیلے مل جائیں گے جو تیری ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہوں گے… والسلام‘‘[4] اسی طرح ایک دن انہوں نے سرکاری فرامین اور ڈاک لکھنے کے لیے مزید کاغذ طلب کیے تو آپ نے انہیں یہ جواب لکھا: ’’جب میرا یہ خط تمہیں ملے تو اپنے قلم کا قط زیادہ باریک کر لینا (تاکہ مزید باریک لکھے اور کم جگہ گھیرے) اور باریک باریک اور ملا ملا کر عبارتیں لکھو، اور جتنی ہو سکے کام کی باتیں ایک ہی ورق میں لکھنے کی کوشش کرو، کیونکہ ایسی زائد از ضرورت بات کی مسلمانوں کو کوئی ضرورت نہیں جس سے بیت المال کا نقصان ہو۔‘‘[5] یہیں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو سرکاری خزانے کی کس قدر فکر تھی، چنانچہ آپ نے اپنے والیوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ وہ سرکاری خزانے کو نہایت احتیاط اور عمدہ طریقے سے استعمال کریں حتی کہ کاغذ تک کو بھی زیادہ استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۳۵۔ [2] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ: ص ۹۸۔ [3] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۲۱۰۔ [4] مدینہ کے یہ والی ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم تھے۔ سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۶۴۔ [5] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص۱۲۱۔