کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 395
آخرت کی محبت کو راسخ کر دیا۔ اور وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خیر کے کاموں میں حصہ لینے لگے۔ اب ہر طرف دوسروں کی خیر خواہی کے زمزمے گونج رہے تھے، بنیادی ضروریات زندگی فراہم کی جا رہی تھیں۔ مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کے سروں پر دست شفقت رکھا جا رہا تھا، رستے بن رہے ہیں، نہریں جاری ہو رہی ہیں، کنویں کھدوائے جا رہے ہیں پھر دوسری طرف مساجد تعمیر کی جا رہی تھیں، تعلیمی درسگاہوں کا شور تھا اور طلباء کی کفالت کی جا رہی تھی۔
غرض عامۃ الناس کے خیر کے کاموں میں حصہ لینے نے بیت المال کی بے شمار ذمہ داریوں میں تخفیف پیدا کر دی تھی۔
۲۔ حکومتی مصالح میں انفاق کے قبلہ کی درستی
انفاق کے میدان میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیاست ’’اقتصادی بہتری‘‘ کی اساس پر قائم تھی، جس کو دوسرے لفظوں میں ’’مالی انتظامات کی درستی‘‘ کہہ سکتے ہیں اور اس سیاست کا مقتضی اسراف و تبذیر اور بخل و کنجوسی کی ہر دو غلط روشوں کا خاتمہ تھا۔[1] حکومتی مصارف کی اصلاح کے لیے آپ نے جو اقدامات کیے ان کا خلاصہ یہ ہے:
الف: خلیفہ اور اموی امراء کی خصوصی مراعات کا خاتمہ: …… گزشتہ میں بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ نے وہ زمینیں اور جاگیریں بحقِ سرکار ضبط کر کے یا تو بیت المال میں جمع کرا دیں یا پھر ان کے مالکوں کو لوٹا دیں جن کو گزشتہ امراء اور خلفاء نے ظلماً یا جبراً اپنے لیے خاص کر لیا تھا اور اس کی ابتدا آپ نے خود اپنی ذات اور اپنے گھر سے کی، آپ بیت المال سے کچھ نہ لیتے تھے۔ لوگوں نے اس پر یہ کہا کہ چلو اتنا لے لیجئے جتنا امیرالمومنین خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لیا کرتے تھے تو آپ انہیں یہ جواب دے کر خاموش کر دیتے کہ ’’جناب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی مال نہ تھا جبکہ میں تو مالدار آدمی ہوں، بھلا میں کیوں لوں۔‘‘[2] خلیفہ بننے کے بعد جب آپ کے سامنے گزشتہ خلفاء کی مزین ومرصع سواریاں پیش کی گئیں تو آپ نے ان تمام سواریوں اور ان کے قیمتی سامان کو بیت المال میں جمع کروا کر ان کی جگہ اپنا خچر طلب فرمایا اور آئندہ ہمیشہ اسی خچر پر سوار ہو کر آتے جاتے تھے، گزشتہ ادوار میں حکومتی طبقہ کی طرف سے مالی بے ضابطگیوں کی ایک روش یہ بھی رہی تھی کہ مرحوم خلیفہ کے ورثاء اس کے تمام شاہی استعمالی کپڑے سامان زیب وزینت، عطور و بخور پر بطور ورثہ قبضہ کر لیتے اور باقی بچ جانے والے سامان کو نئے خلیفہ کے سپرد کر دیتے۔ لیکن جب آپ خلیفہ بنے تو آپ نے اس سامان کے بارے میں یہ حکم جاری کیا کہ ’’نہ تو یہ میرا ہے اور نہ سلیمان بن عبدالملک (مرحوم خلیفہ) کا ہے اور نہ تم لوگوں (یعنی ورثاء) کا ہی ہے لیکن اے مزاحم! یہ سب کچھ بیت المال
[1] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ، ص: ۹۶۔۹۵۔
[2] العقد الفرید: ۵/ ۲۲۔