کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 394
کھڑے ہو کر نماز بھی ادا نہ کر سکے۔ اور صرف اُسی کو رات کو بھی بیڑیاں ڈالے رکھو جو کسی قتل ناحق کے جرم میں ماخوذ و گرفتار ہے اور انہیں صدقات کی مد میں اچھا کھانا اور سالن دو۔[1] آپ نے قیدیوں کے لیے سردی گرمی کے ایک ایک جوڑے اور سالانہ وظیفہ کا بھی حکم دیا۔[2] ج: راہ گیروں اور مسافروں پر خرچ:……آپ نے مسافروں کی رعایت اور اہتمام کی بنا پر اپنے عاملوں کو خط لکھا کہ ’’وہ رستوں پر مسافر خانے، مہمان خانے، لنگر اور دار الضیافت کھولنے کا اہتمام کریں۔‘‘ چنانچہ ایک عامل کو خط لکھا کہ ’’اپنے علاقے میں سرائیں تعمیر کرو، پس جو مسلمان راہ گیر گزرے اس کی ایک دن رات ضیافت کرو۔ اس کے جانور کی دیکھ بھال کرو۔‘‘ جیسا کہ گزشتہ میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ اسی طرح آپ نے حجاج کرام کی دیکھ بھال پر بھی توجہ دی کہ ان میں سے کمزوروں کی رعایت اور تنگدست کی مدد کی جائے۔[3] د: غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ :……آپ نے غلاموں کے آزاد کرانے کو بھی اپنی انفاق کی سیاست میں نمایاں جگہ دی۔ چنانچہ افریقہ کا عاملِ صدقات کہتا ہے کہ ’’حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھے افریقہ کے صدقات اکٹھے کرنے بھیجا، جب میں صدقات اکٹھے کر چکا تو فقراء کو ڈھونڈنے لگا کہ ان پر صدقات خرچ کروں، عجب بات ہے کہ مجھے وہاں کوئی مستحقِ صدقہ نہ ملا تو میں نے مال صدقہ سے غلاموں کو خرید کر آزاد کر دیا اور ان کی ولاء مسلمانوں کے لیے مقرر کر دی۔‘‘[4] گزشتہ صفحات میں اس عنوان پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے علماء کے تمام اخراجات و ضروریات کو بیت المال کے ذمے کر کے انہیں ہر قسم کی تشویش سے فارغ البال کر دیا تاکہ وہ اطمینان قلب کے ساتھ اپنی دعوتی، تبلیغی، تربیتی، تعلیمی اور تصنیفی سرگرمیاں سر انجام دے سکیں۔ آپ نے اسلامی معاشرے کے کسی طبقہ کو بھی نظر انداز نہ کیا تھا حتیٰ کہ نو عمر لڑکوں کے لیے بھی وظائف مقرر کیے تاکہ ان کے ذمہ داران ان کی صحیح دینی، روحانی تعلیمی اور اخلاقی تربیت کر سکیں۔ ذمیوں تک کو نوازا حتیٰ کہ ان کے بوڑھوں اور ناداروں سے بجائے جزیہ لینے کے، ان کے لیے وظائف اجراء کیا۔[5] تاجروں کے ساتھ حسن سلوک کا تفصیلی ذکر بھی ہو چکا، آپ کی اس عمدہ سیاست نے ملکی تجارت کو بے حد فروغ دیا، زراعت کا میدان بھی آپ کی دقتِ نظر، حساس فطرت اور حسن سیاست سے فیض یاب ہوئے بغیر نہ رہا، اسی معاشی فارغ البالی، آسودگی اور خوشحالی نے افرادِ معاشرہ کے جیوں میں دین کی روح اور
[1] الخراج لابی یوسف: ص ۳۱۵۔ [2] الطبقات: ۵/ ۳۵۶۔ [3] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۶۵۔ [4] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ: ص ۹۴۔ [5] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ: ص ۹۵۔ ۹۶۔