کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 393
ب: مقروضوں پر خرچ:……آپ نے مقروضوں پر بھی خصوصی توجہ دی، ابن شہاب زہری کا لکھا خط ابھی تفصیل سے ذکر کیا جا چکا ہے، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی مد میں سے مقروضوں کی بھی خدمت کی جائے۔ چنانچہ جب آپ نے اپنے والیوں کو خط لکھا کہ ’’مقروضوں کے قرض ادا کرو‘‘ تو انہوں نے یہ لکھ بھیجا کہ کیا اس کا بھی قرض ادا کریں جس کے پاس رہنے کو مکان، برتنے کو سامان، سواری کے لیے جانور اور خدمت کے لیے خادم بھی ہو؟ آپ نے فرمایا: ’’تب بھی!‘‘ جیسا کہ گزشتہ میں تفصیل سے ذکر کیا جا چکا ہے، گویا کہ آپ نے یہ واضح کیا کہ یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں جو سب کا حق ہیں جن سے کوئی قرضدار بھی محروم نہیں رہ سکتا۔ والی کوفہ نے خط لکھ کر بتلایا کہ فوجیوں اور غازیوں کو تنخواہیں دینے کے بعد بھی مال بچ رہا ہے تو آپ نے جواب میں یہ لکھ بھیجا کہ ’’اس زائد مال میں سے مقروض کا وہ قرض ادا کرو جو کسی گناہ کی بنا پر نہ ہو۔ یا وہ قرض اس پر نکاح کرنے کی بنا پر چڑھ گیا ہو کہ شادی کر کے مہر ادا کرنے پر قادر نہ ہو۔ والسلام۔‘‘[1] اور کوفہ کی مسجد میں آپ کا یہ خط پڑھ کر سنایا گیا۔ ’’جس کے ذمے امانت ہو اور وہ اس کے ادا پر قادر نہ ہو، اسے بیت المال میں سے ادا کرو، جو نکاح کر کے مہر نہ دے سکتا ہو اس کا مہر بیت المال میں سے ادا کرو۔‘‘[2] ج: قیدیوں پر خرچ :……ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًاo اِِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًاo} (الدھر: ۸۔۱۰) ’’اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔(اور کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ کے چہرے کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔ یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہو گا۔‘‘ آپ نے قیدیوں پر بیت المال سے خرچ کیا، گزشتہ میں آپ کی معاشرتی زندگی کی تفصیلات میں اس کو ذکر کیا جا چکا ہے، چنانچہ آپ نے قسطنطنیہ کے مسلمان قیدیوں کے بارے میں بھی خط لکھا۔[3] آپ نے کسی جرم یا قصاص کی وجہ سے جیلوں میں پڑے مسلمان قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان پر خرچ کرنے کا حکم دیا۔ اور یہ حکم بھی دیا کہ ’’کسی قیدی کو زندان میں یوں مشکیں کس کر نہ رکھو کہ وہ
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۶۷۔ [2] الطبقات: ۵/ ۳۷۴۔ [3] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ لعمر: ص۹۳۔