کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 392
’’تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے، پس امام نگران ونگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘[1]
چنانچہ آپ پوری تند ہی کے ساتھ ضرورت مندوں کی حاجات پوری کرنے میں لگ گئے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک آدمی آپ کے سامنے آکر یوں گویا ہوا: ’’اے امیرالمومنین! حاجت نے کمر توڑ دی، فاقوں نے جان مار دی بے شک کل قیامت کے دن اللہ اپنے سامنے آپ سے میرے اس کھڑے ہونے کے بارے میں سوال کرے گا۔‘‘ اس وقت آپ ایک لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے۔ اس سائل کی ایسی درد بھری گفتگو سن کر اس قدر روئے کہ آنسوؤں نے بہہ کر اس لاٹھی کو بھی تر کر دیا، پھر آپ نے اس کے اور اس کے گھر والوں کے لیے وظیفہ جاری کرنے کا حکم دیا اور سالانہ تنخواہ جاری ہونے تک اس کو پانچ سو دینار دینے کا حکم دیا۔[2]
آپ کو بیواؤں اور ان کی بیٹیوں کی بے حد فکر رہتی تھی، عراقی خاتون اور اس کی پانچ بیٹیوں کا عبرت آمیز قصہ گزشتہ میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’بیواؤں اور مسکینوں کے کاموں کو سر انجام دینے میں لگنے والا اللہ کی راہ میں (لڑنے والے) مجاہد کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو دن میں روزے رکھے اور راتوں کو (جاگ کر) عبادت کرے۔‘‘[3]
آپ نے فقیروں، مسکینوں اور مسافروں کو کھانے کھلانے کے لیے علیحدہ سے ایک مکان مخصوص کر رکھا تھا۔[4] (جسے آج کی زبان میں لنگر خانہ کہہ سکتے ہیں)۔ پھر اتنے پر ہی اور ان پر ہی بس نہیں کی بلکہ آپ نے مریضوں، آفت زدوں اور یتیموں پر بھی خصوصی توجہ دی۔ چنانچہ آپ نے شام کے بلاد و امصار کی طرف یہ خط لکھا:
’’بیت المال سے اندھے، لنجے، فالج زدہ اور ایسے کہنہ مرض کے لیے وظیفہ جاری کرو جو مسجد تک آکر نماز ادا کرنے سے قاصر ہو۔‘‘ چنانچہ انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے لوگوں کو بیت المال سے وظائف پہنچائے۔، پھر مزید یہ کہ آپ نے ہر نابینا کے لیے ایک قائد اور دوسرے معذوروں کے لیے ایک ایک خادم مقرر کرنے کا حکم بھی دیا، پھر یہ خط لکھ بھیجا: ’’وہاں کے یتیموں اور بے نواؤں کو میرے پاس بھیج دو۔‘‘ پھر آپ نے ہر پانچ یتیموں کے لیے ایک خادم مقرر کیا جو ان میں مساوی طور پر وظائف تقسیم کرتا تھا۔‘‘[5]
[1] صحیح البخاری، رقم: ۸۹۳۔
[2] حلیۃ الاولیاء: ۵/ ۲۸۹۔
[3] صحیح البخاری، رقم: ۶۰۰۶۔
[4] الطبقات: ۵/ ۳۷۸۔
[5] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص۲۰۲۔