کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 391
ابن شہاب زہری نے آپ کو مصارف زکوٰۃ کی تفصیل لکھ بھیجی جس میں یہ بیان کیا کہ ’’زکوٰۃ میں اپاہج اور دائمی مریضوں کا بھی حصہ ہے۔ (یہ وہ لوگ ہیں جو مستقل اور اصلی معذور ہیں) اسی طرح ان مسکینوں کا بھی حصہ ہے جو ناداری کی بنا پر اپنے کنبہ کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے اور نہ وہ زمین میں چل پھر کر محنت مزدوری ہی کر سکتے ہیں۔ (یہ عارضی مجبور اور معذور لوگ ہیں جیسے کسی کو کاروبار میں نقصان ہو جائے یا وہ مجاہد جس کو جنگ میں ایسی ضرب لگی کہ اب وہ ناکارہ ہوگیا)۔ اور زکوٰۃ میں ان مسکینوں کا بھی حصہ ہے جو سوال کرتے ہیں اور اہل ثروت سے کھانے کی بھیک مانگتے ہیں۔ (پھر انہیں اتنا مل جاتا ہے جس سے انہیں مزید سوال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی) اور زکوٰۃ میں قید میں پڑے ان مسلمانوں کا بھی حصہ ہے جن کا اور کوئی نہیں۔ اور زکوٰۃ میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو مساجد میں پڑے رہتے ہیں اور نہ ان کی کوئی تنخواہ ہے، نہ وظیفہ اور نہ کوئی ذریعہ معاش لیکن یہ لوگ دوسروں سے سوال نہیں کرتے۔ زکوٰۃ میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو نادار ہوگئے اور ان کے سروں پر قرض ہے اور یہ قرض رب کی کسی نافرمانی کے کام میں یا دین پر کسی عار کے کام میں نہیں چڑھا۔ اور زکوٰۃ میں بے نوا مسافر کا بھی حصہ ہے جس کا ٹھکانہ نہیں اور نہ اس کے رشتہ دار ہی ہیں جن کے ہاں وہ پناہ لے سکے۔ پس ایسے کسمپرس مسافر کو زکوٰۃ کی مد میں سے ٹھکانہ بھی دیا جائے، اس کی خورونوش کا بھی انتظام کیا جائے اور اس کی سواری کے چارہ کی بھی تدبیر کی جائے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے وطن اپنے گھر پہنچ جائے یا اس کی حاجت روائی ہو جائے۔[1] زہری رحمہ اللہ کے اس تفصیلی خط کی روشنی میں آپ نے رعایا پر انفاق کی بابت جو اقدامات کیے ان کی مختصر تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے: الف: فقراء مساکین پر خرچ :…آپ کو خاص اس طبقہ کی بڑی فکر تھی، آپ انہیں مستغنی کرنے کی بے حد کوشش کرتے تھے، گزشتہ اوراق میں آپ کا اپنی بیوی فاطمہ کے ساتھ طویل قصہ بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ دور دراز کے بے آسرا، بے سہارا، لا چار، بے خان ومان، بے سروسامان، تنگدست وتہی دامن، مجبور ومقہور اور بھولے بھٹکے، دربدر پھرتے گم کردہ راہ مسافروں، غریبوں، مسکینوں اور فقیروں کو یاد کر کے ساری ساری رات روتے تھے اور یوں لگتا تھا کہ ابھی روتے روتے جان دے دیں گے۔ یہی ایک واقعہ محتاجوں پر خرچ کرنے کی بابت آپ کی سیاست کی ترجمانی کے لیے کافی ہے جو بلند ترین معانی، اونچے جذبات، حساس خیالات اور دردمندانہ افکار سے لبریز ہے۔ ہم یہ بات کہنے میں بالکل بجا ہیں کہ جناب سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اس عظیم مسؤلیت اور ذمہ داری کا بھر پور احساس تھا جو یہ ارشاد فرما کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کندھوں پر ڈالی تھی، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
[1] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ لعمر: ص ۸۳۔