کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 390
پھر جب آپ نے خمس کے مصارف میں غور کیا تو دیکھا کہ خمس کے مصارف بھی وہی ہیں جو فے کے مصارف ہیں، اسی لیے آپ نے بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح مال فے کو مال خمس کے ساتھ ملا دیا۔[1] اور اس میں سے سب مسلمانوں کے مفادات عامہ پر خرچ کرتے۔ آپ نے اس بابت ایک خط بھی لکھا کہ ’’خمس کے مصارف میں گزشتہ فقہاء کا اختلاف ہے۔ اس کو متعدد امور میں خرچ کیا گیا ہے۔ پھر جب ہم نے غور کیا تو اس کے مصارف بھی وہی تھے جو رب تعالیٰ نے کتاب عزیز میں فے کے مصارف بیان کیے ہیں حتیٰ کہ کسی ایک مصرف میں بھی اختلاف نہیں۔ اور دیکھا کہ سیّدنا عمر بن خطاب نے فے میں وہ فیصلہ کیا جس پر سب مسلمان راضی تھے۔ چنانچہ آپ نے ان میں سے لوگوں کے لیے وظائف اور تنخواہیں جاری کیں، پھر آپ نے دیکھا کہ خمس سے سب ضروریات پوری نہیں کی جا سکتیں کہ یتیموں، مسکینوں اور مسافروں سب کا اس میں حق ہے تو آپ نے فے کو بھی خمس کے ساتھ ملا لیا اور خمس کو فے کے ان مصارف میں خرچ کیا جن کو رب تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اور ان کو فرض کیا ہے… پس تم امام عادل (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ) کی اقتداء کرو کیونکہ خمس اور فے کی آیات باہم متفق ہیں اس لیے ہماری رائے ہے کہ ان دونوں کو یکجا کر دیا جائے اور دونوں کو مسلمانوں کے لیے فے بنا دیا جائے۔ اور مسلمانوں پر کسی کو ترجیح نہ دی جائے۔[2] سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خمس اور فے کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنیوں کو اپنی اقتصادی سیاست کے اہداف کے حصول کا ذریعہ بنایا، چنانچہ جب آپ نے ان اموال کو قرآنِ کریم کے ارشاد کے مطابق حاجت مندوں اور مستحق لوگوں میں تقسیم کیا اور ضرورت مندوں کو دوسروں پر ترجیح دی، چاہے وہ جہاں کے بھی ہوں تو لوگوں کو آپ کے عدل و انصاف کا شدت کے ساتھ احساس ہوا اور آپ کی عادلانہ مالی تقسیم نے گزشتہ مظالم کا ازالہ کیا۔ ۴… سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی اِنفاقِ عام کی بابت سیاست اس کو ہم ذیل کے عناوین کے تحت ذکر کرتے ہیں: ۱۔ رعایا پر خرچ آپ نے آمد وخرچ کے نظام کو درست کرنے کے لیے فقراء اور محتاجوں پر خرچ کیا، آپ نے لوگوں کے معاشرتی حقوق کو یقینی بنایا اور ان کی حفظانِ صحت کا خاص اہتمام کیا۔ بلا شبہ یہ وہ مطالب شرعیہ ہیں جن کو قرآن کریم اور سنت نبویہ بیان کرتے ہیں۔ آپ نے خلافت کے بالکل ابتدائی زمانہ سے ہی شرع شریف کی اتباع اور حق وانصاف کے التزام کا اہتمام کیا تھا۔ اس بابت آپ نے علماء سے بھی استفسار کیا۔ چنانچہ
[1] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ: ص۸۳۔ [2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۹۷۔