کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 39
بچپن سے ہی حفظ قرآن اور حصول علم کی طرف توجہ:
رب تعالیٰ نے نہایت کم سنی میں حصول علم کی لگن سے نواز دیا تھا۔ اس لیے ہر وقت علماء کی مجالس میں حاضر باش رہتے، بالخصوص علماء مدینہ کی صحبت کسی حال میں ترک نہ کرتے۔ کیونکہ اس وقت مدینہ منورہ علوم کا گہوارہ، صلاح وفلاح کا منارہ، اور علماء، فقہاء اور صلحاء کا بحرز خار تھا۔ حصولِ ادب وعلم کے شوق کے آثار بچپن سے ہی نمایاں تھے۔ [1] نہایت کم سنی میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ اور یہ آپ کے نفس کی پاکیزگی اور حفظ قرآن کے لیے کامل انہماک اور پوری توجہ کانتیجہ تھا۔ آپ نے قرآن کریم کے مضامین کا پوری گہرائی کے ساتھ مطالعہ اس لیے آپ رب تعالیٰ کی ذات، حیات، کون، جنت، د وزخ، قضاء وقدر اور موت کی حقیقت سے بے حد متاثر تھے اور عنفوان شباب میں ہی موت کے ذکر سے رونے لگتے تھے۔ جب آپ کی والدہ ماجدہ کو آپ کے اس حال کی خبر ہوئی تووالدہ ماجدہ نے پیغام بھیج کر رونے کا سبب دریافت کیا۔ جب آپ نے بتلایا کہ میں موت کو یاد کر کے روتا ہوں تو والدہ بھی یہ سن کر روپڑیں ۔[2]
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنی ساری زندگی قرآن کریم میں غور و تدبر کرنے اور قرآن کریم کے احکامات کی تنفیذ میں گزار دی۔ ذیل میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قرآن کریم کے ساتھ عقیدت وتاثر کے چند واقعات کو نقل کیا جاتاہے:
٭ ابن ابی ذئب سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بیان کیا جس نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو اس وقت دیکھا تھا جب وہ امیر مدینہ تھے۔ وہ شخص کہتا ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے پاس قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی:
{وَاِِذَا اُلْقُوْا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُوْرًا} (الفرقان: ۱۳)
’’اور جب وہ اس کی کسی تنگ جگہ میں آپس میں جکڑے ہوئے ڈالے جائیں گے تو وہاں کسی نہ کسی ہلاکت کو پکاریں گے۔‘‘
تو روپڑے اور اتنا روئے کہ سسکیوں کی آواز بلند ہونے لگی۔ پھر آپ مجلس سے اٹھ کر دولت کدہ تشریف لے گئے جس پر حاضرین مجلس متفرق ہوگئے۔[3]
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب ان قیامت کا انکار کرنے و الوں کو دوزخ کی ایک تنگ جگہ میں ڈالا جائے گا تو ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ زنجیروں سے جکڑ دیا جائے گا۔ اس وقت یہ لوگ موت کو پکاریں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس تنگ جگہ میں یہ لوگ دنیا میں کی گئی اپنی نافرمانیوں پر ندامت کا اظہار
[1] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/۶۷۹
[2] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/۶۷۸
[3] الرقۃ والبکاء، رقم: ۸۳ از ابن ابی الدنیا