کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 389
درست کرنے پر مرکوز رکھی۔ اس لیے آپ کے دور خلافت میں فتوحات اس کثرت سے نہ ہوئیں، جیسی اس سے قبل ہوئی تھیں۔ آپ نے جنگی محاذوں پر توجہ دینے کے بجائے دعوت دینے اور نیک سیرت ونمونہ پیش کرنے پر توجہ دی۔ آپ کے دعوتی خطوط کی بنا پر بے شمار بربر بغیر قتال کے اسلام میں داخل ہوگئے۔[1] یہی وجہ ہے کہ آپ کے دور میں غنیمت اور فے کی مد جمع ہونے والی آمدنی کی مقدار نہ ہونے کے برابر تھی۔ اور بیت المال میں موجود رقم گزشتہ خلفاء کی فتوحات کا نتیجہ تھی۔[2] البتہ آپ نے اموال غنیمت کے خمس کی آمد و صرف کے نظام کی اصلاح ضرور کی۔ چنانچہ خاص خمس کے لیے ایک الگ سے بیت المال بنوایا۔[3] اور حکم جاری کیا کہ خمس کو ان جگہوں میں خرچ کیا جائے جن کا ذکر سورئہ انفال میں آتا ہے، چنانچہ آپ نے اولین ترجیح ضرورت مندوں کو دی چاہے وہ جہاں بھی رہتے تھے۔[4] آپ نے ذوالقربی کے حصہ میں سے دس ہزار دینار بنو ہاشم میں تقسیم کیے جس میں مرد و عورت اور چھوٹے بڑے سب کو برابر حصہ دیا۔ آپ کے اس حسن سلوک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سیدہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن ابی طالب لکھتی ہیں:
’’اے امیرالمومنین! آپ نے اس کی خدمت کی جس کا خادم نہ تھا، اس کو پہنایا جو بے لباس تھا اور اس پر خرچ کیا جو خالی ہاتھ تھا۔‘‘[5]
آپ نے خمس کا حق اس کے حقداروں تک اہتمام کے ساتھ پہنچایا، آپ سے پہلے فتح اندلس کا خمس تقسیم نہ کیا گیا تھا۔ چنانچہ آپ نے اندلس کے والی کو لکھا کہ وہ ان زمینوں کو دوسری زمینوں سے جدا کرے جو عنوۃً (جنگ کے ساتھ) فتح ہوئی تھیں اور ان کا خمس نکالے۔[6]
رہا مال فے تو اس میں بھی آپ نے قرآن وسنت اور سنت خلفائے راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم کی کامل اتباع کی، چنانچہ آپ نے ایک رسالہ میں ان اموال اور بستیوں کا تفصیلی ذکر کیا جن کو رب تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنا جنگ وقتال کے عطا فرمایا تھا اور اس کے استدلال میں سورۂ حشر کی وہ آیات پیش کیں جو اسی بارے نازل ہوئی تھیں، اور بیان کیا کہ مالِ فے میں ہر مسلمان کا حق ہے، سورئہ حشر کی آیات بتلاتی ہیں کہ یہ مستحقین، حضرات مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد قیامت تک آنے والے اہل ایمان ہیں۔[7] یہ آپ کا اجتہاد تھا جو سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کے موافق تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے مال فے کو مسلمانوں کی نسلوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔[8]
[1] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ لعمر: ص ۸۱۔
[2] ایضًا
[3] ایضًا
[4] الطبقات: ۵/ ۳۵۰۔
[5] ایضًا
[6] تاریخ الاسلام، از حسن ابراہیم: ۱/ ۳۲۰۔
[7] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۹۷۔
[8] الخراج لابی یوسف: ص ۲۵۔