کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 388
و:… جو شخص بھی اپنی نالائقی یا فضول خرچی کی بنا پر مقروض ہوگیا ہو اس کے قرض کی ادائیگی کا فرمان جاری کیا۔[1] اور چیدہ چیدہ تاجروں کو بھی اس حکم میں داخل کیا۔ اس قرار داد سے ان تاجروں کو سنبھلنے کا موقع ملا جو بعض تجارتی غلطیوں اور ناتجربہ کاریوں کی بنا پر شدید تجارتی خساروں کا شکار ہوگئے تھے۔ بالخصوص وہ تاجر جن کی تجارت ہی مال مقروضہ سے شروع ہوئی تھی اور پھر ان کا سرمایہ ڈوب گیا تو قرضوں کی ادائیگی کی اس سکیم سے ایسے تاجروں کو بھی دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے اور تجارتی سرگرمیوں کو از سر نو شروع کرنے کا موقع ملا۔ ز:… آپ نے تمام بلاد وامصار میں ناپ تول کے پیمانے اور باٹ ایک ہی پیمائش اور وزن کے مقرر کر دئیے اور اس کو ملکی قانون کی ایک اہم ترین شق قرار دیا۔ ح:… سرکاری عہدوں پر تعینات افراد جیسے والیوں، امراء اور حکمرانوں کو تجارت میں مشغول ہونے سے منع کر دیا تاکہ بازار میں ان کی دخل اندازی سے تاجروں میں باہمی آزادانہ منافست اور مقابلہ متاثر نہ ہو۔ یا وہ لوگ بازار کے چالو نرخ پر اثر انداز نہ ہوں۔ دراصل آپ بازار سے ہر قسم کی غیر طبعی دخل اندازی کو ختم کر دینا چاہتے تھے جو بازار کے مروجہ نرخوں پر اثر انداز ہو۔[2] ط:… آپ نے ذخیرہ اندوزی کو بھی سختی کے ساتھ منع کیا، چنانچہ حمص کا وہ بازار جس پر گنتی کے چند لوگ قابض تھے اور ان سب پر ولید بن عبدالملک نے اپنا تسلط جما رکھا تھا۔ آپ نے اس مصنوعی قبضہ کو ختم کر کے دکانیں کھولنے کی عام اجازت دی اور جن لوگوں سے دکانیں چھین لی گئی تھیں ان کو واپس دلوائیں۔[3] بلاشبہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں ان اقدامات نے ملک کی تجارت اور اقتصادیات کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا، جس سے عشور کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم میں بے پناہ اضافہ ہوا اور قومی خزانہ مستحکم اور مضبوط ہوا۔ اور آپ نے دل کھول کر ان آمدنیوں کو عوام کی مصالحہ عامہ میں خرچ کیا۔[4] ۵۔ اموال غنیمت اور فے کا خمس اصطلاح میں مال غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جس کو جنگ وقتال کے دوران کفار سے تلوار کے زور پر (یعنی اسلحہ کے زور پر) اور غالب آکر حاصل کیا جاتا ہے۔[5] جبکہ فے اصطلاح میں اس مال کو کہا جاتا ہے جومشرکوں اور دشمنوں سے قتال کے بغیر اور ان پر یلغار کیے بغیر حاصل ہو۔[6] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خلافت سنبھالنے کے بعد اپنی زیادہ تر توجہ مملکت کے داخلی بگاڑ کو
[1] الاموال لابی عبید، ص: ۲۳۴۔۲۳۵۔ [2] التطور الاقتصادی: ص ۲۱۹۔ [3] التطور الاقتصادی فی العصر الاموی: ص ۲۲۰۔ [4] ایضًا [5] الاموال لابی عبید، ص: ۲۳۴۔۲۳۵۔ [6] الاحکام السلطانیۃ للماوردی: ص ۱۹۹۔