کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 387
حسنِ سیاست سے زبردست متاثر ہوئے۔[1]
ب:… تجارتی شعبہ کو بھی آپ نے گزشتہ ادوار کے عاید کردہ بے جا ٹیکسوں کے بوجھ سے آزاد کر دیا اور صرف عشور پر اکتفا کیا۔[2] جس سے تجارتی شعبہ پر مثبت اثرات کا مرتب ہونا لازمی تھا، ظالمانہ ٹیکسوں سے آزادی نے تاجروں کا حوصلہ بلند کیا اور ان کی تجارتی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اب جہاں تجارتی منافع کی شرح فی صد میں اضافہ ہوا وہیں تجارتی مبادلات کا حجم بھی بے حد بڑھ گیا۔[3]
ج:… آپ نے تاجروں سے مالی واجبات کی وصولی کے لیے نہایت نرم اور کریمانہ رویہ اپنایا اور سابقہ سخت رویوں کو ختم کر دیا۔[4] اس شریفانہ اور کریمانہ رویے نے بھی تجارتی سر گرمیوں کو خوب پروان چڑھایا۔
د:… آپ نے تجارتی رستوں میں تاجروں کو زبردست سہولیات فراہم کیں ان کے لیے مہمان خانے اور آرام گاہیں تعمیر کرائیں۔[5] تاکہ ان کے لیے سامان تجارت کو لے آنے اور لے جانے میں کسی قسم کی دقت اور دشواری نہ ہو۔ چنانچہ آپ نے ایک نے بلادِ مشرق کے تجارتی رستوں کو ہر طرح سے پر امن بنایا جس سے لوٹ کھسوٹ اور چوری ڈاکے کے خطرات ختم ہوگئے، دوسرے آپ نے ان علاقوں کے والیوں سے جہاں یہ آرام گاہیں (یعنی ریسٹ ہاؤس) تھیں، اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ آنے جانے والے تاجروں کی سرکاری خرچ سے مہمان نوازی اور خاطر تواضع کیا کریں۔ چنانچہ اگر تو وہ مسلمان ہیں تو ایک دن رات وگرنہ ایک وقت کی ضیافت کریں۔[6] ان کے جانوروں کی دیکھ بھال اور چارہ پانی کا انتظام کریں۔ اور اگر کوئی تاجر یا اس کا جانور بیمار ہو تو اس کی دوا دارو کا بھی انتظام کیا جائے۔ آپ نے یہ حکم بھی دیا کہ اگر ان آرام گاہوں کے پاس سے کوئی ایسا آدمی گزرے جو رستہ بھٹک گیا، یا اس کا زادِ راہ ختم ہوگیا یا اس کا سامان تجارت چوری ہوگیا ہو تو اس کو مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ اتنی رقم بھی فراہم کی جائے جس سے وہ اپنے وطن بآسانی پہنچ جائے۔ اور یہ امر کسی صاحب دانش وبینش پر مخفی نہیں کہ ایسی سہولیات اور امدادات کا باہمی تجارت کے فروغ میں اور تاجروں کی حوصلہ افزائی میں کتنا دخل ہے۔[7]
ھ:… آپ نے تاجروں کو وظیفہ دینا بند کر دیا تاکہ وہ کسب معاش میں سو فیصد تجارت پر ہی انحصار کریں، جس سے ان کی تجارتی سرگرمیوں میں بھر پور اضافہ ہونا ناگزیر اور فطری عمل تھا، بالخصوص جبکہ اس دور میں تجارت ایک پر مشقت ذریعہ معاش تھا، اور جب آج کے دور کی طرح کی سفری سہولیات بھی میسر نہ تھیں۔
[1] التطور الاقتصادی فی العصر الاموی: ص ۲۱۸۔
[2] ایضًا
[3] ایضًا
[4] التطور الاقتصادی: ص ۲۱۸۔
[5] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم، ص: ۴۳۹۔
[6] مسلمان تاجر تجارت کی غرض سے زیادہ تر بلاد مشرق کا رخ کیا کرتے تھے۔
[7] التطور الاقتصادی فی العصر الاموی: ص ۲۱۹۔