کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 386
خراج کی اتنی بڑی مقدار خلافت کی مالی حالت کی قوت واستحکام کی طرف اشارہ کرتی ہے، یاد رہے کہ عراق کا خراج خلافت کی سب سے بڑی آمدنی تھی۔[1] اور یہی آپ کی وہ اقتصادی سیاست تھی جس کے بل بوتے پر آپ نے مملکت کے ترقیاتی منصوبوں کے بڑے بڑے اہداف کو نہایت کم مدت میں بڑی سہولت کے ساتھ حاصل کر لیا تھا۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ خراج کی آمدنی کے مصارف میں مصارف زکوٰۃ سے کہیں زیادہ وسعت، نرمی اور لچک ہے کیونکہ زکوٰۃ کے مصارف متعین اور محدود ہیں جبکہ خراج کے مصارف حاکم وقت کی صوابدید، حکمتِ مالی واقتصادی، سیاستِ عدل، رحمدلی، شفقت اور مہربانی پر موقوف ہیں۔[2] ۴۔ عشور اصطلاح میں عشور اس رقم کو کہتے ہیں جو حربی تاجروں یا ذمی تاجروں یا غیر تاجروں سے اس وقت لیا جاتا ہے جب وہ خلافت اسلامیہ کی سرحدات کو پار کر کے گزرتے ہیں۔[3] (یعنی حربی تاجروں یا ذمیوں سے لیے جانے والے رہداری ٹیکس کو عشور کہتے ہیں۔ مترجم) لہٰذا حربی تاجر کی تجارت سے وصول کیے جانے والے عشور کی مقدار ’’عشر‘‘ اور ذمی تاجر کی تجارت سے وصول کیے جانے والے عشور کی مقدار نصف عشر ہے، اور عشور ایک سال میں اسی مال سے دوبارہ نہ لیا جائے گا۔ ذمی کے لیے عشور کا نصاب بیس دینار ہے۔ جبکہ حربی کے لیے دس دینار۔[4] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عشور کی طرف خصوصی توجہ دی اور اپنے عمال کے سامنے اس کی مبادیات کو واضح کیا اور اس بات کا حکم دیا کہ جو تاجر عشور ادا کر دے اس کو وصولی کی چٹ ضرور دیں تاکہ اگلے سال اس سے دوگنا عشور وصول نہ کیا جائے۔ اور ناحق عشور وصول کرنے سے بھی منع کیا۔[5] آپ کے دور میں عشور کے عادلانہ نظام کی وجہ سے بیرونی تجارت اور درآمدات میں بے پناہ اضافہ ہوا، تجارتی حجم میں اضافہ کے لیے آپ نے مندرجہ ذیل اقدامات کیے: الف:…آپ نے زرعی شعبہ کے اضافی ٹیکسوں کو ختم کیا۔[6] جس کا تجارتی شعبہ پر مثبت اثر مرتب ہوا، وہ یوں کہ آلاتِ زرعیہ کے نرخوں میں واضح کمی آئی جس سے ان کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا اور آلات زرعیہ کی تجارت کا حجم دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑھ گیا۔ غرض آپ کی زرعی شعبہ سے متعلقہ صحیح سیاست کے صرف تجارت پر ہی مثبت اثرات نہ پڑے تھے بلکہ مملکت کے دوسرے اقتصادی شعبے بھی آپ کی
[1] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ، ص: ۶۷۔ [2] ایضًا : ص ۷۶۔ [3] معجم الفقہاء: ص ۳۱۲۔ [4] المغنی: ۱۰/ ۵۸۹۔ [5] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ: ص۷۷۔ [6] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۱۴۱۔