کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 385
درگور کر دیا جن کی سرکوبی کے لیے خلافت کو بھاری اخراجات کا بوجھ سہنا پڑتا تھا، جبکہ بے شمار لوگ اسلام قبول کر کے اب زکوٰۃ دینے لگے تھے، اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ زکوٰۃ کی مقدار جزیہ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جبکہ یہ نو مسلم اپنی خراجی زمینوں کا خراج بھی دے رہے تھے۔ کسی معاشرے میں امن واطمینان کی فضا یقینا اس کی قوت عمل اور پیداواری وسائل میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور یہی عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دورِخلافت کی امتیازی صفت اور اس کا طرہ امتیاز وافتخار تھا۔[1] ۳۔ خراج اُن زمینوں پر لاگو ٹیکس کو کہتے ہیں جن کو قوت کے ساتھ فتح کر کے ان زمینوں پر مقرر کیا گیا ہو، یا ان کو مصالحت کے ساتھ فتح کیا گیا ہو اور صلح کے وقت اہل زمین نے اتنی رقم خراج میں دینا طے کیا ہو۔[2] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت میں خراج کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کی مقدار ایک سو چوبیس ملین دراہم تک پہنچ گئی تھی۔[3] اور یہ سب آپ کی اصلاحی سیاست کا نتیجہ تھا، چنانچہ آپ نے خراجی زمینوں کی فروختگی پر پابندی لگا کر اس رئیسی پیداواری ذریعہ (Source) کو محفوظ بنا دیا، پھر آپ نے مزارعین پر سے بے جا اور ظالمانہ ٹیکسوں کو ختم کر کے ان میں قوت عمل کی نئی روح پھونک دی اور ان پر سے مایوسیوں اور حسرتوں کے ان سیاہ بادلوں کو ہٹایا جن کے تاریک سایوں نے ان کے دلوں کو زمینوں پر کام کرنے سے اچاٹ کر دیا ہوا تھا۔ پھر آپ نے بنجر، بے آباد اور بے آب وگیاہ زمینوں کی اصلاح وتعمیر اور ان کو قابل کاشت بنانے کے لیے نہایت پرکشش سیاست اپنائی۔ دوسری طرف زمینوں کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے رستے درست کیے، کنویں کھدوائے، نہریں جاری کیں اور چشمے بنوائے۔[4] رستوں کے درست ہونے سے مزارعین کو غلہ بازاروں تک لے جانا آسان ہوا اور نہری نظام کے درست ہونے سے انہیں کھیتوں کو پانی لگانا از حد آسان ہوگیا۔ ان دو طرفہ اصلاحات نے خراجی زمینوں کی پیداواری مقدار میں بے پناہ اضافہ کیا اور صرف عراق کا خراج ایک سو چوبیس ملین دراہم تک پہنچ گیا تھا۔ جو گزشتہ اموی خلفاء میں سے کسی کے بھی دور میں حاصل ہونے والے خراج کی رقم سے کہیں زیادہ رقم تھی، چنانچہ عراق کا وہ خراج جو حجاج کے دور میں صرف چالیس ملین تھا، وہی خراج حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور سعادت میں سو ملین دراہم تک تھا۔ جو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں ایک سو بیس ملین درہم تک پہنچ گیا۔[5] جبکہ آپ کے دور میں صرف خراسان سے اتنا خراج آتا تھا جو تمام حکومتی اخراجات سے بھی زائد ہوتا تھا۔ غرض آپ کے دور میں اتنا زیادہ خراج آتا تھا جتنا عام حالات میں کبھی اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔[6]
[1] الخراج للریس: ص ۲۵۹۔ [2] معجم لغۃ الفقہاء: ۱۹۴۔ [3] الخراج للریس: ص ۲۳۸۔ [4] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ: ص ۷۴۔ [5] الخراج للریس: ص ۲۳۷۔ ۲۳۸۔ [6] ایضًا : ص ۲۳۷۔ ۲۳۸۔