کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 384
آپ نے بے حد سختی سے کام لیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے عمال کو یہ فرمان جاری کیا کہ ’’جو ہمارے کلمہ کی شہادت دے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرے اس سے جزیہ ہرگز بھی مت لو۔‘‘[1] آپ کے اس عدل و انصاف کے چرچے سن کر ذمی جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ جس پر بعض عامل چلا اٹھے کہ اگر یہ ذمی اسی طرح اسلام میں داخل ہوتے رہے تو ایک دن آئے گا جب جزیہ کی مد کی رقم بالکل ختم ہو جائے گی تو پھر حکومتی کاروبار کیونکر چلے گا۔ جس کے جواب میں آپ نے یہ لکھ بھیجا :’’رب تعالیٰ نے حضرت رسالت مآب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی بنا کر بھیجا تھا جابی (ٹیکس وصول کرنے والا) بنا کر نہیں۔‘‘[2] دوسرے حق و عدل کو قائم کرنا، ذمیوں پر سے مظالم کو ختم کرنا، مزارعین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور جزیہ بقدر استطاعت مالیہ کے مقرر کرنا آپ کی خلافت وسیاست کے بنیادی اصولوں میں سے تھا۔ اسی لیے آپ نے ذمیوں کو تین طبقات میں تقسیم کرنا، ’’غنی (اہل ثروت) متوسط (مڈل کلاس لوگ یا سفید پوش طبقہ) اور تنگدست ومحتاج‘‘ اور آپ نے ہر ایک کے ساتھ اس کی مالی حیثیت کے مطابق سلوک کیا، چنانچہ کاشتکار کا جزیہ اس کی پیداوار سے، پیشہ ور (ہنر مند اور کاریگر) طبقہ سے جزیہ اس کی کمائی سے اور تاجر کا جزیہ اس کی تجارت سے وصول کرتے۔[3] پھر جزیہ کی مقدار میں آپ ہر شہر اور علاقہ کی مالی حیثیت کو بھی سامنے رکھتے۔ چنانچہ اہل شام کے مرفہ الحال اور مالدار ہونے کی بنا پر، ان پر اہل یمن سے زیادہ جزیہ مقرر کیا۔[4] جبکہ غیر مستطیع تنگدستوں کو سرے سے جزیہ دینے سے ہی مستثنیٰ قرار دے دیا، بلکہ خود ان کے لیے بیت المال سے وظائف کا اجراء کر دیا جیسا کہ امیر المومنین خلیفہ راشد ومہدی سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بے بس ولاچار ذمیوں کے ساتھ کیا تھا۔[5] اور جب آپ نے اہل نجران کے ذمیوں کی مردم شماری کروائی اور ان کی تعداد دس سے بھی کم نکلی تو آپ نے ان کے جزیہ کی رقم کم کر دی۔ جو آپ کے بعد میں بھی اسی طرح رہا۔ چنانچہ آپ ان سے دو ہزار دراہم کے بجائے، دو سو جوڑے کپڑوں کے لیتے تھے۔ جبکہ مر جانے والے یا مسلمان ہو جانے والے کے جزیہ کو ساقط کر دیا۔[6] جزیہ کی بابت ان اصلاحات کا بیت المال پر نہایت مثبت اثر مرتب ہوا، چنانچہ نو مسلم پر سے جزیہ کے ختم کر دینے نے حاکم اور محکوم کے درمیان اعتماد کی زبردست فضا پیدا کی۔ اور انہیں اپنے حاکم کے عادل ومنصف ہونے کا پختہ شعور حاصل ہوا، اس پر اعتماد فضا نے خلافت کے اندرونی ماحول میں ان فتنوں اور شورشوں کو زندہ
[1] الاموال، رقم: ۱۲۷۔ ص: ۶۱۔ [2] الطبقات: ۵/ ۳۸۴۔ [3] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۹۹۔ [4] الاموال لابی عبید، رقم: ۱۰۷۔ ص: ۵۱۔ [5] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ: ص ۷۱۔ [6] الخراج: ص ۲۳۲ للریس۔