کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 383
فقیہانہ نظام زکوٰۃ کو جاتی ہے کیونکہ نومسلموں میں اغنیاء اور دولت مند بھی تھے جنہوں نے فرض زکوٰۃ کو بلاکم وکاست فقراء اور محتاجوں تک پہنچایا۔
اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیرت و تقویٰ نے لوگوں کو بے حد اور براہ راست متاثر کیا جس سے حاکم اور محکوم میں اعتماد کی ایک فضا بحال ہوئی جو گزشتہ ادوار حکومت میں تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ اسی اعتماد نے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ ادا کرنے پر آمادہ کیا، چنانچہ جیسے ہی لوگوں نے آپ کے خلیفہ بننے کی خبر سنی تو دھڑا دھڑ زکوٰۃ ادا کرنے لگے، جس سے ایک طرف خلافت کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی تو دوسری طرف محتاجوں کے دن بھی بدلنے لگے۔[1]
تاریخی روایات شاہد ہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دورِ خلافت میں زکوٰۃ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچ رہتی تھی، حتیٰ کہ بسا اوقات ایک آدمی اپنی زکوٰۃ لاتا پر اسے زکوٰۃ قبول کرنے والا مستحق تلاش بسیار کے باوجود بھی نہ ملتا۔[2] اور اس کا سب اہم سبب افراد معاشرہ کا عمل اور پیداوار میں لگ جانا تھا۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نظام زکوٰۃ کے درست ہونے سے معاشرے میں کاہلی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوا اور پیداواری عمل میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کے نتیجہ زکوٰۃ دینے والوں کی تعداد تو حد سے بڑھ گئی جبکہ لینے والوں کی تعداد دن بہ دن گھٹتی چلی گئی۔[3]
۲۔ جزیہ
اصطلاح میں جزیہ حکومت اسلامیہ کی طرف سے دارالاسلام میں رہنے والے کافروں سے سالانہ لی جانے والی ایک خاص رقم (یا ٹیکس) کو کہتے ہیں۔ جزیہ لینے کے جواز کی دلیل قرآن وحدیث اور امت کا اجماع ہے۔[4] لہٰذا جزیہ کی وصولی میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے دراصل سنت کی اتباع کی تھی۔ اسی لیے آپ نے مسلمان ہو جانے والوں پر سے جزیہ کو ساقط کر دیا تھا۔ کیونکہ جزیہ کافروں پر فرض ہوتا ہے جو اسلام لے آنے کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔[5] لیکن افسوس کہ بنو امیہ کے گزشتہ خلفاء مسلمان ہو جانے والوں سے بھی جزیہ لیتے رہے تھے۔ چنانچہ حجاج اس بات کو آڑ بنا کر جزیہ لیتا رہا کہ ان لوگوں نے جزیہ سے جان چھڑانے کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور یہی امر حجاج اور امویوں کے ساتھ لوگوں کی زیادہ نفرت کا سبب بنتا چلا گیا۔[6] اس لیے آپ نے خلیفہ بنتے ہی نو مسلموں پر سے جزیہ کو یکسر ختم کر دیا۔[7] اور اس بارے میں
[1] ملامح الانقلاب: ص ۱۳۵۔
[2] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۱۳۱۔
[3] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمر، ص ۶۹۔
[4] المغنی لابن قدامۃ: ۱۰/ ۵۵۷۔
[5] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ: ص ۷۰۔
[6] الضرائب فی السواد: ص ۵۸۔
[7] الطبقات: ۵/ ۳۴۵۔