کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 382
’’صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں)۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
آپ نے حکم دیا کہ زکوٰۃ کو اس حکم قرآنی کے مطابق تقسیم کیا جائے۔[1] یہ تو مصارف زکوٰۃ کا بیان ہوا جبکہ وصولی زکوٰۃ کے ضمن میں بھی آپ نے سنت کی اتباع کا زبردست مظاہرہ کیا۔ چنانچہ آپ نے نیکو کار اور خداترس بندوں کو زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر کیا جو کسی قسم کے ظلم اور زیادتی کے بغیر پوری پوری زکوٰۃ وصول کریں۔ اور جس سے زکوٰۃ وصول کر لیں اس کی وصولی کی دستاویز بھی ضرور دیں۔[2] تاکہ کسی دوسرے کے ناجائز مطالبہ پر وہ دستاویز دکھا کر ظلم سے بچ سکیں۔
آپ نے تمام قسم کے اموال سے زکوٰۃ لینے کا حکم دیا جن میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، چنانچہ زکوٰۃ کو سرکاری ملازموں، والیوں، امراء اور عاملوں کی تنخواہوں سے بھی وصول کیا گیا، جن کو ان کے چھینے ہوئے اموال اور جائیدادیں واپس ملیں ان سے بھی زکوٰۃ لی گئی۔ اور جن کو انعامات سے نوازا گیا، وہ بھی زکوٰۃ ادا کرنے کے مامور ٹھہرے۔[3]
آپ نے اسی قوم کے فقراء کو جب وہ محتاج ہوں، زکوٰۃ کا زیادہ مستحق ٹھہرایا جن کے اغنیاء سے زکوٰۃ وصول کی گئی تھی۔[4] اور جب کارکنانِ زکوٰۃ مال زکوٰۃ لے آتے توآپ انہیں حکم دیتے کہ جہاں سے یہ زکوٰۃ اکٹھی کر لائے ہو اب وہیں کے محتاجوں اور مستحقوں کو تلاش کر کے ان میں تقسیم بھی کر آؤ۔[5]
وصولی زکوٰۃ کے باب میں آپ کی ان اقتصادی اصلاحات کا زکوٰۃ کی بڑھوتری پر زبردست اثر مرتب ہوا اور امن وامان کی فضا قائم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے بنیادی زرعی اور تجارتی منصوبوں پر عمل کرنا بھی آسان ہوگیا۔ اور ہر طرف خوشحالی، آسودگی اور ترقی کا راج ہونے لگا۔[6]
آپ نے زکوٰۃ دینے والوں پر بھی سہولت کی اور اس کا اندازہ اونٹوں، مچھلیوں، شہد اور زراعت وغیرہ کی زکوٰۃ لینے کی بابت آپ کی فقہ سے ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں خود زکوٰۃ دینے والوں کا مال بڑھا جو آگے چل کر اور زیادہ زکوٰۃ اکٹھی ہونے کا باعث بنا۔
آپ کی دعوتی سرگرمیوں سے ذمیوں نے کثرت کے ساتھ اسلام قبول کیا اور یہ فضیلت بھی آپ کے
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۹۴۔
[2] ایضًا : ص ۹۹۔
[3] الاموال لابی عبید، رقم: ۱۲۲۶۔ ص: ۵۲۹۔
[4] فتح الباری: ۳/ ۳۲۲۔
[5] الاموال، رقم: ۱۹۱۷۔ ص۷۱۲۔
[6] ملامح الانقلاب الاسلامی: ص۱۳۵۔