کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 381
ممکن ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بھی حکومتوں نے اپنی روش درست کی اور اسلام کی روشن شریعت پر چلیں اس کے مالی بجٹ میں بے پناہ ترقی ہوئی اور عوام کو بے جا ظلم و جبر سے نجات ملی۔ اور ملکی مفادات کو بھر پور رعایت کی گئی۔ لیکن جب بھی حکومتوں نے شریعت عادلہ کا رستہ ترک کیا اور کج روی اختیار کی تو اس کے مالی توازن میں بے پناہ بگاڑ آیا، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی ملک کا بجٹ اس کے ظلم یا عدل کا اور نظام یا بدنظمی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔[1] آئیے! اب ذیل میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں حکومت کی مالی آمدنیوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں: ۱۔ زکوٰۃ آپ نے زکوٰۃ کے نظام کو صحیح اور بدعنوانی سے پاک بنانے کی بے حد کوشش کی کیونکہ فرائض اسلامیہ میں سے رب کا عاید کردہ ایک فریضہ ہے جسے فقراء، مساکین، مسافروں اور رستہ بھٹک کر بے خان ومان ہو جانے والوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس میں سستی اور کوتاہی کی کسی طرح بھی گنجائش نہ تھی۔ اسی لیے آپ نے زکوٰۃ کو اہتمام کے ساتھ ان کے مستحقین تک پہنچایا۔[2] آپ نے اپنے عاملوں کو حکم لکھ بھیجا کہ وہ مستحقین زکوٰۃ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان تک ان کا یہ حق پہنچائیں۔ اور یہ بھی حکم دیا کہ اگر فقراء اور مساکین نہیں ملتے تو زکوٰۃ کی مد میں غلاموں کو خرید خرید کر آزاد کریں۔[3] زکوٰۃ کے باب میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری تابعداری کے لیے بے حد پر عزم تھے۔ جبکہ گزشتہ خلفاء نے زکوٰۃ کے امر میں دو طرفہ شدید غفلتوں اور کوتاہیوں کا ارتکاب کیا تھا۔ چنانچہ زکوٰۃ وصول بھی ناحق کی اور خرچ بھی بے محل اور بے جا کی۔‘‘[4] یہ اتباع سنت کے اہتمام کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ نے صدقات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خطوط کو لکھوایا اور ان کے متعدد نسخے تیار کروا کے ان کو بلاد وامصار کے عمال کے پاس بھیجا۔ ان خطوط میں اونٹوں، گایوں، بکریوں، بھیڑوں، سونے، چاندی، کھجور، غلوں اور منقیٰ کی زکوٰۃ اور ہر ایک کے نصاب کا ذکر تھا۔[5] جبکہ مصارف زکوٰۃ کے باب میں آپ نے قرآن کریم کے اس حکم کو معیار اور مدار ٹھہرایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ} (التوبۃ: ۶۰)
[1] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمر: ص ۵۸۔ [2] ایضًا : ص ۶۰۔ [3] ایضًا [4] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۱۲۹۔ [5] الاموال لابی عبید، ص: ۴۴۷، رقم: ۹۳۴۔