کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 380
مسجد نبوی کی توسیع کی، اس کے مناروں کو بلند کیا، اس کی محرابوں کو جوف دار بنایا۔ آپ نے مسافروں اور حاجیوں کے لیے مہمان خانوں سراپوں اور ہوٹلوں کا بھی انتظام کروایا۔[1] اسی طرح امیر المومنین کے حکم سے خلافت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانہ تک دریائے نیل اور بحیرہ قلزم کے درمیان خلیج کھودنے کا کام بھی جاری رہا تاکہ مصر سے مکہ تک اشیاء خور ونوش کا پہنچانا آسان ہو۔[2] اور جب والی بصرہ نے آپ کو خط لکھ کر اس بات کی اجازت مانگی کہ اہل بصرہ اپنے لیے ایک نہر کھودنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو آپ نے اس کی اجازت دے دی اور اس نہر کا نام ’’نہر عدی‘‘ رکھا۔[3] ۳… آمدنیوں اور پیداواری ذرائع کی بابت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی مالی سیاست اقتصادی اہداف کے حصول میں آمد وخرچ کی مالی سیاست کا بڑا اہم دخل ہے۔[4] اسی لیے آپ نے عوام پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے مالی سیاست کا آغاز کیا، آپ نے رد مظالم میں اس قدر خرچ کیا کہ عراق کا بیت المال خالی ہوگیا اور اس میں شام سے مال بھیجنا پڑا۔[5] آپ نے زرعی منصوبوں اور ترقیات عامہ کے کاموں میں خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے سب طبقات اور اقوام پر بھی سرکاری مال خرچ کیا اور آپ نے ظالمانہ ٹیکسوں کو ختم کیا، مسلمان ہو جانے والے پر سے جزیہ اٹھا دیا، کاشتکاروں پر اضافی ٹیکسوں کا خاتمہ کیا، چنگی کے نام پر لیے جانے والے ٹیکسوں کو بھی منع کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف بیت المال کی بے دریغ لوٹی گئی دولت کی واپسی کا بھی قرار واقعی انتظام کیا۔ چنانچہ ناجائز الاٹ کی گئی جاگیریں ضبط کیں، مظالم واپس دلوائے، طبقہ امراء اور حکومتی ملازموں کے خصوصی امتیازات کو کالعدم قرار دیا۔ جبکہ جنگی اور حکومتی اداروں پر خرچ کرنے میں مبالغہ کی حد تک کام لیا[6] تاکہ ان دونوں اداروں کو زیادہ سے زیادہ فعال بنایا جا سکے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی زراعت و تجارت میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ جس سے ملکی وسائل کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اور حکومتی آمدنیوں جیسے زکوٰۃ، خراج اور عشور وغیرہ کی شرح فی صد از حد ترقی کر گئی۔ اور ملکی میرزانیہ (آمد وخرچ کا گوشوارہ اور بجٹ) میں بھر پور ترقی ہوئی، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ملکی خزانے کی زائد از ضرورت رقم کو رعایا کے مفاد عامہ میں بے دریغ خرچ کیا تاکہ اقتصادی اہداف کا حصول
[1] خامس الخلفاء الراشدین للبدوی: ص ۱۷۰۔ [2] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمر: ص ۵۵۔ [3] ایضًا: ص ۵۷۔ [4] ایضًا [5] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۱۲۹۔ [6] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ: ص ۵۸۔