کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 379
آپ مزارعین کو قرضے فراہم کرتے تھے، چنانچہ آپ نے والی عراق کو لکھا کہ ’’دیکھو! جس شخص کے ذمہ جزیہ ہو اور وہ اپنی زمین میں کھیتی کرنے سے عاجز ہو تو اسے اتنی رقم قرض میں دے دو جس سے وہ زمین میں کھیتی کاآغاز کر سکے کیونکہ ہمیں ایک یا دو سال کے لیے ان لوگوں کی ضرورت نہیں۔‘‘[1]
د: چراگاہیں:…… آپ نے اس بات سے سختی کے ساتھ منع کیا کہ کوئی شخص اپنی ذاتی وجاہت یا حکومتی اثر و رسوخ کی وجہ سے کسی چراگاہ پر قبضہ جما کر نہ بیٹھ جائے۔ بلکہ آپ نے قدرتی چراگاہوں کو سب مسلمانوں کے لیے عام وقف کر دیا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ چراگاہیں سب مسلمانوں کے لیے عام ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ پہلے ایک آدمی باڑ لگوا کر اس پر قبضہ کر لیتا اور اس میں اپنے صدقہ کے اونٹوں کو چراتا جس میں ظاہر ہے اسے نفع اور قوت حاصل ہوتی۔ جس پر دوسرے لوگ اسے طعنہ دیتے تھے۔ اس لیے میرے خیال میں بہتر یہ ہے کہ ان چراگاہوں سے باڑ ہٹا کر ان کو سب کے لیے عام کر دینا چاہیے حتیٰ کہ حاکم وقت بھی ان چراگاہوں سے رعایا کا ایک فرد بن کر فائدہ اٹھائے۔ یہ رب کی رحمت ہے جو برستی ہے اور گھاس اگتی ہے اس لیے سب بندے اس میں برابر ہیں۔‘‘[2] البتہ جب آپ نے سب چراگاہوں کو مباح کر دیا تو نقیع[3] کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا۔ کیونکہ صدقہ کے اونٹوں کے لیے یہ چراگاہ خود جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی تھی۔[4] بہرحال چراگاہ کو ممنوعہ علاقہ قرار دینے سے وہ ایک جماعت کے لیے خاص ہو جاتا ہے اور وہ اس سے نفع اٹھاتے ہیں۔ غرض چراگاہ کو خاص کرنا یہ زمین کو اباحیت سے ملکیت عامہ کی طرف منتقل کرنا ہے تاکہ وہ زمین مسلمانوں کی ایک جماعت پر وقف رہے۔[5]
ھ: بنیادی ترقیاتی کام:…… آپ نے والی مدینہ ہونے کے زمانے سے ان خطوط پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا کہ لوگوں کو ان کی بنیادی اور شہری ضروریات زندگی بہم پہنچائی جائیں، اور خلیفہ بننے کے بعد تو اس کا اور بھی زیادہ اہتمام کیا کہ تاجروں، کسانوں اور مسافروں کے رفاہِ عامہ کے امور سر انجام دیئے جائیں۔ مدینہ کی ولایت کے زمانہ میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو خط لکھ کر اس بات کا حکم دیا کہ دشوار رستوں اور اونچے نیچے ٹیلوں کو ہموار کیا جائے اور مدینہ میں کنویں کھودے جائیں۔ چنانچہ آپ نے بئر حفیر کھدوایا جس کا پانی بے حد میٹھا تھا۔[6]
اسی طرح آپ نے ولید کے حکم سے پانی کا ایک فوارہ یعنی چشمہ بھی بنوایا اور اس کے پانی کو جاری کیا،
[1] التطور الاقتصادی فی العصر الاموی: ص ۲۰۲۔
[2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۹۸۔
[3] نقیع، یہ مدینہ سے دو راتوں کی دوری پر بلاد مزینہ کی ایک بستی کا نام ہے۔
[4] فتح الباری: ۵/ ۳۴۔
[5] الاتجاہ الجماعی فی التشریع الاقتصادی: ص ۲۴۲۔
[6] الحیاۃ الاقتصادیۃ والاجتماعیۃ فی نجد، والحجاز فی العصر الاموی: ص ۵۶۔