کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 378
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ’’ظالمانہ ٹیکسوں کو ختم کرنے کی سیاست‘‘ نے خلافت کی اقتصادی ترقی میں بھر پور کردار ادا کیا۔
ج: بنجر زمینوں کی آباد کاری، تعمیر اور اصلاح:…… آپ نے لوگوں کو اس بات کی زبردست ترغیب دی کہ وہ بنجر زمینوں کو آباد کریں اور ان میں کاشتکاری کر کے انہیں مفید، کارآمد اور پیداواری بنائیں۔ چنانچہ آپ نے عاملِ کوفہ کو خط لکھا : ’’بنجرز مین کو پیداواری اور پیداواری زمین کو بنجر زمین پر محمول مت کرو۔‘‘[1] بنجر زمین پر اس کی پیداوار کے بقدر خراج مقرر کرو اور اس کی آباد کاری کا انتظام کرو یہاں تک کہ وہ پیداوار کے لائق ہو جائے اور پیداواری زمین کے مالکان سے نرمی کے ساتھ صرف خراج ہی لو اور ان پر ان ہی لوگوں کو آباد رکھو۔‘‘[2]
آپ نے یہ بھی لکھ بھیجا: ’’جس نے کسی زمین کو پانی لگا کر اس پر قبضہ کر لیا وہ اسی کی ہے۔‘‘ حکیم بن زریق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: ’’میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا وہ خط پڑھا ہے جو انہوں نے میرے والد کو لکھا تھا کہ ’’جس نے کھیتی کر کے یا کوئی عمارت بنا کر مردہ زمین کو زندہ کیا تو وہ اسی کی ہے جب تک کہ اس کو کسی نے اپنے پیسوں سے خریدا نہ ہو یا اس کے ایک حصہ کو زندہ کر کے دوسرے کو چھوڑ دیا ہو۔ پس جن لوگوں نے اس زمین کو زندہ کیا ہے انہیں اس میں کھیتی کرنے یا عمارت بنانے کی اجازت دو۔‘‘[3]
آپ نے لاوارث زمینوں سے فائدہ اٹھانے کی زبردست ترغیب دی۔ البتہ آپ کے نزدیک لاوارث زمینوں پر ملکیت بیت المال کی باقی رہے گی۔ اور جو اس میں کاشت کر کے فصل اگاتا ہے، وہ زمین اسے بطور جاگیر نہیں دی جائے گی۔ البتہ آپ نے ایسی زمینوں کو نصف پیداوار کی شرط پر بطور مزارعت کے دینے کا حکم دیا۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر کوئی تیار نہیں ہوتا تو ثلث پر مزارعت کی پیش کش کرو، پھر بھی اگر کوئی تیار نہیں ہوتا تو ربع پر آجاؤ اور اگر ہوتے ہوتے عشر پر بھی کوئی تیار نہیں ہوتا تو پھر کسی کو عطیہ کر دو۔ اور اگر اس کے باوجود بھی کوئی اس میں کاشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا تو پھر بیت المال کے خرچ پر اس میں کھیتی باڑی کرو۔‘‘[4]
یہیں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو غیر آباد زمینیں آباد کرنے کا کس قدر اہتمام تھا، کسانوں کے ساتھ آپ کے حسن سلوک اور انہیں ظالمانہ ٹیکسوں سے آزاد کرنے کی بابت بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شامی فوجی دستہ کسی شخص کی کھیتی کے پاس سے گزرا اور اس کو برباد کرتے ہوئے آگے چل دیا۔ جب اس آدمی نے فوجیوں کی اس ناروا حرکت کی خبر آپ کو دی تو آپ نے دس ہزار دراہم اس شخص کے نقصان کے عوض میں ادا کیے۔[5]
[1] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمر: ص ۵۳۔
[2] الاموال لابی عبید، رقم: ۱۲۰ ص ۵۷۔
[3] الاموال: رقم ۷۱۷۔ ص: ۳۶۹۔
[4] الخراج: ص ۹۹۔ از یحيٰ بن آدم۔
[5] سیرۃ ومناقب عمر لابن الجوزی: ص ۱۱۷۔