کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 377
(جس میں خراج کی وصولی کے لیے ذمہ میں واجب مقدار کا کسی کو کفیل بنا کر اس سے اتنی رقم لے لی جاتی تھی)۔ آپ نے خراج کی مقدار کا اندازہ کرنے کے رائج طریق کو بھی ختم کر دیا۔ وہ یوں کہ خراج کی وصولی کرنے والے پھلوں کا نرخ بہت زیادہ لگا کر اس کی نقد قیمت مزارعین سے وصول کرتے یوں انہیں مارکیٹ ریٹ سے مہنگے داموں خراج کی رقم دینی پڑتی جو کسانوں کی کمر توڑ کے رکھ دیتی۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خراج کانرخ وہ مقرر کیا جو بازار میں چل رہا ہو، چنانچہ آپ نے ایک عامل کو لکھا: ’’مجھے اس بات کا علم ہوا کہ تمہارے عامل ایرانیوں سے خراج کی رقم وصول کرتے وقت بازار کے بھاؤ سے زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں۔‘‘ پھر آپ نے اس بات کی تحقیق کے لیے بشر بن صفوان اور عبداللہ بن عجلان کو بھیجا۔ جنہوں نے جا کر جائزہ لیا اور زیادہ قیمت کو رد کر کے بازار کا بھاؤ مقرر کیا۔[1] اسی طرح آپ نے اہل یمن پر مقرر کیے گئے ناجائز ٹیکسوں کو بھی ختم کیا جیسے ان لوگوں سے عشر کی زمینوں کے مالک ہونے کے باوجود خراج لیا جاتا تھا۔ چنانچہ آپ نے عامل یمن کو خط لکھا کہ’’آپ نے مجھے خط لکھ کر اس بات کی خبر دی ہے کہ آپ کو یمن جانے کا اتفاق ہوا۔ اور وہاں آپ کے دیکھنے میں یہ بات آئی کہ ان لوگوں پر جزیہ کی طرح خراج کے نام پر ٹیکس کی ایک خاص مقدار مسلط کی گئی ہے جو انہیں ہر حال میں دینی ہے، چاہے جئیں یا مریں اور چاہے پیداوار ہو یا نہ ہو۔ سبحان اللہ! ثم سبحان اللہ! میرا یہ خط ملتے ہی باطل کو حق میں بدل دیجئے۔ پس آپ حق پر عمل شروع کر دیجئے چاہے اس کی زد میں یا آپ آجائیں اور چاہیں ہماری روحیں نکل جائیں اور چاہے مجھے سر زمین یمن سے مٹھی بھر ’’کستم‘‘[2]پہنچے۔ اللہ شاہد ہے کہ اگر وہ برحق ہے تو مجھے اتنی معمولی شی سے بھی بے حد خوشی ہوگی… والسلام‘‘[3] ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے گزشتہ ظالمانہ رویوں پر کس قدر شدت کے ساتھ انکار کیا اور اپنے عاملوں کو بھی اس بابت لکھ بھیجا۔ بلا شبہ ان ظالمانہ ٹیکسوں نے خلافت کی اقتصادی حالت پر نہایت برے اثرات مرتب کیے تھے۔ چنانچہ کسانوں نے تنگ آکر کاشتکاری چھوڑ دی جس سے پیداوار میں زبردست کمی آئی اور بیت المال کو شدید خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ حق پر چلنے پر مصر تھے۔ آپ ٹیکس کی مقدار نہیں بلکہ پیداوار کی شرح فیصد اور کیفیت کو سامنے رکھتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپ ظالمانہ ٹیکسوں کو اکٹھا کرنے کے ہرگز بھی روادار نہ تھے۔[4]
[1] الضرائب فی السواد: ص ۶۵۔ [2] کستم: ایک پودا جس کے بیجوں سے قدیم زمانہ میں روشنائی بنائی جاتی تھی اور بالوں کو خضاب کیا جاتا تھا۔ (القاموس الوحید: ص ۱۳۸۷… (مترجم) [3] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص: ۱۲۶۔ [4] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمر: ص ۵۲۔