کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 376
ہیں کہ گویا کہ ان زمینوں کے بارے میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا مذہب یہ تھا کہ یہ زمینیں مال فے ہیں اس لیے آپ نے ان زمینوں کو مالکان کو زمینیں بیچنے سے منع فرما دیا۔‘‘[1]
آپ نے میمون بن مہران کو لکھا کہ ’’لوگوں کو یہ زمینیں مت بیچنے دو کہ یہ تو مسلمانوں کے مال فے کو بیچ رہے ہیں۔‘‘[2] اسی طرح جو ذمی مسلمان ہوتے تھے آپ ان کی زمینوں کو خراجی کی بجائے عشری بنانے پر بھی تیار نہ ہوتے تھے۔[3] اور ان پر خراج اور عشر دونوں کو باقی رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ’’خراج تو زمین پر ہے اور عشر پیداوار پر ہے۔‘‘[4] یوں آپ نے زرعی پیداوار کے بنیادی وسیلہ کو بجائے چھوٹی چھوٹی مالکیتوں کے حوالے کرنے کے اس کو عوام کی ملک عام بنا دیا۔[5]
ب: کسانوں پر خصوصی توجہ اور زرعی ٹیکسوں میں کمی:…… آپ سے پہلے کے اموی خلفاء نے کسانوں کو قسم قسم کے ٹیکسوں کے بوجھ تلے پیس کر رکھا ہوا تھا، حتیٰ کہ کسانوں نے عاجز آکر کاشتکاری سے ہاتھ اٹھا لیے، یوں زمینیں بنجر اور ویران ہونے لگیں، جس سے خلافت کے مالی وسائل کو شدید نقصان پہنچنے لگا۔ اموی خلفاء کے ظالمانہ ٹیکسوں کے ہاتھوں تنگ آکر کسان اپنے مویشیوں اور کپڑوں تک کو بیچنے پر مجبور ہوگئے تھے۔[6] عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے تمام غیر شرعی ٹیکسوں کا خاتمہ کیا اور اس بابت جملہ اصلاحات کو کتابی شکل میں تمام بلاد وامصار کے عاملوں کو لکھ بھیجا۔ اموی خلفاء کس کس نام سے ٹیکس لیتے تھے اس کا اندازہ اس خط سے لگایا جا سکتا ہے، آپ لکھتے ہیں: ’’اہل کوفہ پر زرعی ٹیکسوں کی بابت بے حد ظلم ڈھایا گیا ہے یہ سب خبیث طریقے برے عاملوں کے جاری کردہ ہیں جن کو فوی طور پر ختم کیا جائے، خراج میں صرف سات مثقال وزن کا درہم ہی وصول کیا جائے۔ اس کے علاوہ زمینوں کی پیمائش کرنے والوں کی اجرت کے نام کا ٹیکس یا نقدی پرکھنے والے صراف کی اجرت کے نام پر کوئی ٹیکس نہ لیا جائے۔ اور آج کے بعد نیروز اور مہرجان[7] ایرانی مجوسیوں کی عید کے دن کے نام کے ہدیے بھی بند۔ آج کے بعد ٹیکس وصولی کی چٹ کی قیمت بھی ٹیکس دہندگان سے وصول نہ کی جائے گی اور مقامی بیت المال کے خرچے بھی عوام پر نہ ڈالے جائیں گے۔‘‘ ان کے علاوہ آپ نے بصرہ میں مروج اقرار نامہ اور کفالت کے طریق کو بھی کالعدم قرار دیا
[1] الاموال لابی عبید، ص۱۲۱، رقم: ۲۵۶۔
[2] الاموال لابی عبید: ص ۱۲۲۔ رقم: ۲۵۷۔
[3] السیاسۃ المالیۃ والاقتصادیۃ لعمر: ص ۵۰۔
[4] الاموال لابی عبید : ص ۱۱۴۔ رقم ۲۳۵۔
[5] الخراج: ص ۲۳۹۔
[6] الضرائب فی السواد، للدوری : ص ۵۷۔
[7] نیروز یا نوروز، ایرانی شمسی سال کا پہلا دن جو اکیس مارچ کو ہوتا ہے، عیدِ نو روز ایرانیوں کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے۔ مہرجان: کسی قابل ذکر واقعہ کے جشن یا تقریب کو کہتے ہیں یہ فارسی کا لفظ ہے اور یہ جشن ایرانی مناتے ہیں۔ (القاموس الوحید: ص ۱۵۸۸، ۱۷۲۴)(مترجم) ایرانی ان دونوں تہواروں پر ہدیے پیش کرتے ہیں۔ (صلابی)