کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 375
آپ نے یہ سرکاری حکم جاری کیا کہ ’’شراب کی ممانعت کے بعد جو بھی شراب پیتا (یا بیچتا اور خریدتا) پکڑا گیا اس کو سخت جسمانی سزا دینے کے بعد اس پر بھاری مالی جرمانے بھی عائد کیے جائیں گے۔ اور ہم ایسے شخص کو دوسروں کے لیے بھی عبرت بنائیں گے۔[1] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ان عملی اقدامات کے بعد خلافت میں اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہوئی، رکاوٹیں دور ہوئیں، لوگوں کو کام کرنے اور بقدر محنت کمانے کی مکمل آزادی ملی، جس سے تجارت کے حجم میں اضافہ ہوا، خلافت کی درآمدات و برآمدات کی شرح میں تیزی آئی، مزید برآں یہ کہ لوگوں کی آمدنیوں کے بڑھنے سے زکوٰۃ کی مقدار میں بھی اضافہ ہوا۔ اور جب فقراء ومساکین میں پہلے سے کہیں زیادہ زکوٰۃ تقسیم ہوئی تو ان کے معیارِ زندگی میں بھی بہتری آئی۔ ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوا اور اب سہولیات زندگی تک تنگدست طبقے کی رسائی بھی بآسانی ہونے لگی، اس پر مستزادیہ کہ اشیائے ضروریات و صرف کی طلب اور محنت کی طلب میں بھی اضافہ ہوا جس سے اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ معیشت کی سطح بلند ہوئی اور خوشحالی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔[2] ۲۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی جدید زرعی سیاست آپ نے قومی زرعی پیداوار کی ترقی کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے: الف: خراجی زمین بیچنے کی ممانعت:…… لوگوں نے عبدالملک بن سلیمان، ولید اور مروان سے ذمیوں سے زمین خریدنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے اس شرط پر اجازت دے دی کہ وہ ان کی قیمتوں کو بیت المال میں جمع کروائیں گے۔ جب آپ خلیفہ بنے تو آپ نے یہ معاملہ اپنے حال پر ہی رہنے دیا کیونکہ اب ان اموال سے عورتوں کی مہر، قرضوں کی ادائیگی کی جا رہی تھی اور مواریث کا مسئلہ بھی ان اموال سے وابستہ ہو چکا تھا، اس لیے آپ اس معاملہ کو ختم نہ کر سکے تھے۔ البتہ ۱۰۰ہجری کو آپ نے ایک خط اپنے عاملوں کو لکھا کہ ’’۱۰۰ہجری کے بعد جس نے بھی (ان زمینوں میں سے) کچھ خریدا تو اس کی بیع مردود ہوگی۔‘‘ اور اس سال کو ’’مدت کا سال‘‘ کا نام دیا۔ چنانچہ اس کے بعد لوگ خراجی زمینوں کی بیع وشراء سے رک گئے۔[3] جب مالکان زمین نے آپ سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ آپ ان پر صدقہ کی بجائے خراج مقرر کریں تو آپ نے انہیں یہ جواب لکھ بھیجا کہ ’’میں ان زمینوں سے زیادہ، جن کو رب تعالیٰ نے ان کے لیے فے (یعنی مال غنیمت) بنایا ہے، کسی چیز کو اسلام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے والا نہیں سمجھتا۔‘‘ اس پر ابوعبیدہ لکھتے
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۱۰۳۔ [2] سیاسۃ الانفاق العام فی الاسلام ، از عوف کفراوی : ص ۳۷۲۔ [3] الخراج للریس: ص ۳۹۰۔