کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 374
کہ کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی ان بنیادی ترقیاتی کاموں کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ آپ نے شرعی حدود وقیود میں رہتے ہوئے ہر شخص کو اقتصادی ترقی کی پوری پوری آزادی دی جس سے بلاد و امصار میں بے شمار خوشحالی آئی۔ اس کا تفصیلی بیان گزشتہ میں ’’کسب و تجارت کی آزادی‘‘ کے ذیل میں گزر چکا ہے۔
۲…خلافت کی اقتصادی ترقی کے لیے وسائل کا بیان
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خلافت کی اقتصادی ترقی کے لیے جن وسائل کو اختیار کیا، ان کا بیان ذیل میں اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے:
۱۔ اقتصادی ترقی کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنا
اس غرض کے لیے آپ نے مندرجہ ذیل عملی اقدامات کیے:
الف: حقداروں کو ان کے حقوق دلوانا:…… چنانچہ آپ نے امن وامان کی فضا قائم کی، حق وانصاف کی اقدار کو راسخ کیا۔ لوگوں کو ان کے چھینے ہوئے حقوق دلوائے اور ان کا نام ’’مظالم‘‘ رکھا۔[1] اس بابت گزشتہ میں ’’ردِ مظالم کی بابت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیاست‘‘ کے عنوان کے تحت سیر حاصل گفتگو کی جا چکی ہے۔
ب: مشروط اقتصادی آزادی:…… اس بابت آپ نے اپنے عاملوں کو لکھا: ’’رب تعالیٰ کی اتاری کتاب کی اطاعت میں سے یہ بات ہے کہ لوگوں کو پورے اسلام کی دعوت دی جائے اور یہ کہ لوگ بری اور بحری تجارت کی غرض سے اپنا مال لے کر نکلنا چاہیں تو ان کو منع نہ کیا جائے اور نہ روکا جائے۔‘‘[2]
ایک اور موضوع کے تحت گزشتہ میں بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ نے پلوں اور سڑکوں پر سے گزرنے کے لیے ہر قسم کے ٹیکس کو ختم کر دیا تھا کیونکہ آپ برے عاملین خلافت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے تھے۔[3]
یہ کہ آپ نے مارکیٹ کی نرخ بندی میں کوئی مداخلت نہ کی۔ اور لوگوں کو اشیائے صرف کے بھاؤ مقرر کرنے کی مکمل آزادی دی جس کی قدرے تفصیل ’’کسب وتجارت کی آزادی‘‘ کے ذیل میں عبدالرحمن بن شوبان کی روایت سے بیان کی جا چکی ہے۔
البتہ آپ نے تجارت اور کسب کی اس آزادی کو شرعی قوانین اور حدود وقیود کے ساتھ مقید کیا ہوا تھا، اسی لیے آپ نے حرام اشیاء کی خرید و فروخت پر سخت پابندی لگا دی۔ جن میں سر فہرست ساری برائیوں کی جڑ ’’شراب‘‘ تھی۔ چنانچہ آپ نے اس کی حرمت و ضرر کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں پر اس کے لین دین کی سخت ممانعت عائد کر دی کیونکہ یہی شراب حرام مال کھانے اور ناحق خون کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ چنانچہ
[1] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ: ص ۴۳۔
[2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۹۴۔
[3] الادارۃ الاسلامیۃ، از محمد کرد : ص ۱۰۵۔