کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 373
آمدنیوں کی دوسری مدات سے خدمت لی۔[1] یہ تھی آپ کی اقتصادی سیاست اور رد مظالم کے باب میں آپ کا منہج جس کی کافی تفصیل گزشتہ اوراق میں بیان کی جا چکی ہے، آپ کا ہدف تھا کہ ضرورت مندوں تک بقدر کفایت روزی ضرور پہنچے۔ چنانچہ ایک دن آپ نے لوگوں میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ ہمارا دولت مند طبقہ جمع ہو کر اپنی دولت فقراء پر تقسیم کر دے یہاں تک کہ ہم اور غریب غرباء سب برابر ہو جائیں۔ (اور اس کام کے لیے سب سے پہلے میں حاضر ہوں) اور میں ان کے سب سے زیادہ قریب ہونا چاہتا ہوں۔‘‘[2] آپ نے اس کی علمی اور عملی تطبیق بھی کی۔ اور عمال کو لکھ بھیجا کہ مقروضوں کے قرض ادا کرنے کا بیت المال کی طرف سے انتظام کیا جائے، اس پر ایک عامل نے خط لکھ بھیجا کہ کیا ایسے مقروض کا قرضہ بھی دیا جائے جس کے پاس رہنے کو گھر، سواری اور خادم بھی ہو؟‘‘ تو آپ نے جواب دیا کہ ’’ہاں! رہنے کو گھر گزران کو سامان، خدمت کے لیے خادم اور جہاد کے لیے گھوڑا ہونا ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے، اگر ایسا آدمی بھی مقروض ہو تو اس کا قرض بھی ضرور ادا کرو۔‘‘[3] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی قومی دولت کی تقسیم کی بابت سیاست کا بنیادی ہدف لوگوں کی کفایت کرنا تھا تاکہ ہر شخص کو گھر، سواری اور اثاثۃ البیت میسر آسکے۔ جن کو آج کی اصطلاح میں ’’بنیادی ضروریات‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی آپ کا بنیادی ہدف لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کرنا تھا اور بنیادی ضرورت اس شی کو کہتے ہیں جس کے بغیر زندگی گزارنا دو بھر ہو جائے۔[4] ۲۔ اقتصادی ترقی اور معاشرتی خوشحالی کو یقینی بنانا آپ نے اس اہم ہدف کو حاصل کرنے کے لیے متعدد وسائل استعمال کیے، اقتصادی ترقی کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر تھا اور اس کے لیے فتنوں کی سرکوبی، مظلوموں کی داد رسی، رد مظالم اور امن کا قیام بنیادی ضرورت تھا، تب ہی رعایا اپنے حقوق کی بابت مطمئن اور اپنے ٹھکانوں، مکانوں، دوکانوں اور گرد وپیش کے ماحول میں بے خوف ہو کر زندگی گزار سکتی ہے، اسی طرح آپ نے عوامی، شہری اور ملکی ترقیاتی کاموں میں بھی بے حد دلچسپی لی جن کو آج کل کی زبان میں ’’بنیادی ترقیاتی کام‘‘ کہا جاتا ہے۔ جیسے سڑکیں تعمیر کرنا، ذرائع رسل ورسائل و مواصلات تشکیل دینا، نہریں کھدوانا، کنویں تعمیر کرانا، عوام کو پانی پہنچانا وغیرہ
[1] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمر بن عبدالعزیز: ص ۳۵۔ [2] الادارۃ الاسلامیۃ فی عز العرب، از محمد علی کرد : ص ۱۰۳۔ [3] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص۴۲۔ [4] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمر: ص ۳۸۔