کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 372
میں سے نہیں ہو سکتا۔‘‘[1]
جب بھی غلطی واضح ہو جاتی، آپ فوراً حق کی طرف رجوع کر لیتے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’میرے لیے اس (فیصلے پر لگی لاکھ وغیرہ کی) مہر کو توڑنے اور اس صادر شدہ فیصلے کو رد کرنے سے زیادہ آسان اور سہل دوسری کوئی چیز نہیں جس کا میں فیصلہ دے دوں، پھر حق کو اس کے ماسوا میں دیکھوں تو میں اس فیصلہ کو فی الفور ختم کر دیتا ہوں۔‘‘[2]
۱… سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی اقتصادی سیاست کے اہداف
ہم ذیل کے عناوین کے تحت اس کا قرار واقعی جائزہ لے سکتے ہیں:
۱۔ قومی آمدنی اور دولت وثروت کی عادلانہ تقسیم
آپ نے قومی وسائل وذرائع، آمدنیوں اور دولت کو ایسے عادلانہ طریقے سے تقسیم کیا جو رب تعالیٰ کی مرضی کے عین مطابق تھا، آپ نے حق وانصاف کی اقدار کو زندہ اور قائم کیا جو آپ کی زندگی کا نصب العین تھا، آپ نے گزشتہ خلفاء کی نارروائیوں اور رعایا پر ان کے سلبی اثرات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا، چنانچہ آپ سلیمان بن عبدالملک کی تقسیم دولت کی بابت سیاست پر تنقید کرتے ہوئے ان سے کہتے ہیں: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہل ثروت پر نوازشات کہیں زیادہ ہیں جبکہ آپ نے فقراء کو یکسر بھلا دیا ہوا ہے اور ان کو ان کے فقر و فاقہ کے حوالے کر دیا ہے۔‘‘[3]
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ معاشرے میں طبقاتی تقسیم قومی خزانے کی غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے، چنانچہ آپ نے اپنی نئی سیاست کی بنیاد فقراء ومساکین کو انصاف فراہم کرنے پر رکھی، آپ نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل عملی اقدامات اٹھائے:
٭ آپ نے امراء اور بڑے طبقوں کے لوگوں کا قومی دولت پر قبضہ کرنے کا رستہ بند کیا، ظلماً چھینی گئی املاک اور اموال کو امراء اور اہل ثروت کے پنجہ استبداد سے واگزار کرایا اور ان کو ان کے مالکوں تک پہنچایا اور اگر ان جائیدادوں کے مالک نہ مل سکے تو ان کو بحقِ سرکار ضبط کر کے بیت المال میں جمع کرا دیا یا پھر ان اموال اور جائیدادوں کو رفاہِ عامہ کے لیے مختص کر دیا۔
٭ فقراء، مساکین اور تنگ دستوں پر زیادہ خرچ کیا، محروموں کو دوسری کی بہ نسبت زیادہ نوازا۔ یہاں تک کہ ان کی گزر بسر آسانی سے ہونے لگی اور اس غرض کے لیے آپ نے زکوٰۃ اور بیت المال کی
[1] اعلام الموقعین: ۳/۳۔
[2] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص۱۱۳۔
[3] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۱۳۵۔