کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 371
چھٹی فصل : عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دَور کی مالی اصلاحات سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی مالی سیاست شخصی اور خود ساختہ نہ تھی بلکہ آپ کے سامنے پوری اسلامی قلمرو تھی۔ اس لیے آپ ہر قدم خوب سوچ سمجھ کر اٹھاتے تھے اور جس کام کا بھی عزم کرتے اس کے لیے ضمانتیں مقرر کرتے۔[1] آپ کی مالی سیاست کا مدار مندرجہ ذیل امور پر تھا: کتاب وسنت کا التزام:……اور اس رستے میں ہر قسم کی قربانی دینے سے مطلق دریغ نہ کرنا۔ اور یہ بات آپ کے ان خطوط سے واضح ہو کر سامنے آتی ہے جو آپ نے اپنے عاملوں کو لکھے، چنانچہ ایک موقع پر ارشاد فرماتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد حضرات خلفائے راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم نے ایسی سنتیں مقرر کی ہیں جن پر چلنا کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لینا اور اللہ کے دین کو مضبوط کرنا ہے، لہٰذا کسی کو ان سنن میں تغییر وتبدیلی کرنے کا یا ان کے کسی حکم کے خلاف چلنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘[2] عدل وانصاف کی اقدار کو راسخ کرنا اور ظلم وستم کی روش کو ختم کرنا:……آپ کی سیاست کی اصل اساس و بنیاد یہی امر تھا، چنانچہ آپ کی تمام کاوشیں اور اہداف اسی اصل واساس کے ساتھ مربوط اور جڑے ہوئے تھے۔ بلا شبہ ظلم کا قلع قمع کرنا اور حق کو قائم کرنا شریعت کے اصول اور اس کے مقاصد رئیسہ میں سے ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: {لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ} (الحدید: ۲۵) ’’بلا شبہ یقینا ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شریعت کی بنیاد واساس، معاش ومعاد میں بندے کی مصلحتوں اور حکمتوں پر ہے جو سب کی سب عدل، رحمت، حکمت اور مصلحت ہیں۔ لہٰذا جو مسئلہ بھی عدل سے ظلم کی طرف، رحمت سے زحمت کی طرف، مصلحت سے مفسدہ کی طرف اور حکمت سے لغویت کی طرف نکل جائے وہ شریعت
[1] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمر بن عبدالعزیز: ص ۲۷۔ [2] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۳۸۔