کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 37
آپ کی اسی عادت کا مدینہ کے گھر گھر میں چرچا ہونے لگا۔ والد ماجد کی وفات کے بعد آپ کے چچا امیرالمومنین عبدالملک بن مروان نے آپ کی تربیت کی ذمہ داری اٹھائی۔ اور آپ کو اپنی اولاد کی طرح پالا، بلکہ متعدد امور میں آپ کو اپنی اولاد پر مقدم رکھتے حتی کہ اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی بھی آپ سے کردی۔[1] موصوفہ بے حد نیک اور خدا ترس خاتون تھیں ۔ وہ آپ کی نیکی اور دینداری سے بے حدمتاثر تھی۔ حتی کہ موصوفہ نے جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے کہنے پر دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔ انہی کہ بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ’’وہ خلیفہ کی بیٹی، خلیفہ کی پوتی، خلفاء کی بہن اور خلیفہ کی بیوی ہے۔‘‘ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ موصوفہ امیرالمومنین عبدالملک بن مروان کی بیٹی تھی۔ آپ کا دادا مروان بن حکم بھی خلیفہ تھا۔ اور خلفاء کی بہن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک، یزید بن عبدالملک اور ہشام بن عبدالملک سب آپ کے بھائی اور خلفاء تھے۔ اور آپ کے شوہر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تو خلیفہ راشد تھے، حتی کہ یہ تک کہا جاتا ہے کہ ایسی عورت فاطمہ کے بعد آج تک پیدا نہیں ہوئی جس کا دادا ، بھائی اور خاوند سب حکمران ا ور خلفاء ہوں ۔[2] انہی فاطمہ کے بطن سے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو اللہ نے اسحاق، یعقوب اور موسیٰ عطا کیے۔ آپ کی دوسری بیوی کانام لمیس بنت علی بن حارث ہے۔ اللہ نے ان کو عبداللہ، بکراور امام عمار عطا کیے۔آپ کی تیسری بیوی کا نام ام عثمان بنت شعیب بن زیان ہے، اللہ نے ان کے بطن سے ابراہیم کو پیدا کیا۔ جبکہ عبدالملک، ولید، عاصم، یزید، عبداللہ، عبدالعزیز، زیان، امینہ اور ام عبداللہ ایک باندی کی اولاد تھے۔[3] نین نقش اور خدوخال:…سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ گندم گوں ، نحیف البدن اور پتلے چہرے کے مالک تھے۔ نین نقش اور خدوخال پرکشش اور خوبصورت تھے ۔ خوبصورت گنجان داڑھی چہرہ کی رونق کو دوبالا کرتی تھی۔ آنکھیں قدرے دھنسی ہوئی تھیں ۔ ماتھے پر گھوڑے کے کھر کی ضرب کا نشان تھا بالوں میں ایک سفید لکیر بھی تھی۔ [4] جبکہ بعض نے آپ کا رنگ سفید بھی ذکر کیا ہے۔[5]
[1] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/۶۸۰ [2] ایضًا [3] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز، ص: ۳۱۴۔ ۳۱۵ از ابن جوزی [4] الآثار الواردۃ عن عمر بن عبدالعزیز فی العقیدۃ: ۱/۵۸ [5] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر بن عبدالعزیز: ۱/۱۱