کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 369
۶۔ غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی ترغیب
آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں غیر مسلموں کی مالی امداد کر کے ان کی خوب تالیفِ قلب کی تاکہ کسی طرح یہ لوگ اسلام لے آئیں۔ ابن سعد، عیسی بن ابی عطاء سے روایت کرتے ہیں، جو شامی اور اہل مدینہ کے دیوان پر مامور تھے، وہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ’’کبھی کبھی آپ غیر مسلموں کی تالیفِ قلب کے لیے انہیں مال عطا فرماتے تھے۔‘‘[1] اور ایک روایت میں ہے کہ ’’آپ نے ایک نصرانی بطریق کو اسلام پر لے آنے کے لیے ایک ہزار دینار دے کر اس کی تالیفِ قلب کی۔‘‘[2]
۷۔ ذمیوں کے لیے اصلاحات
ذمیوں کی بابت آپ نے بے حد انصاف سے کام لیا، چنانچہ مسلمان ہو جانے والے ذمیوں پر سے جزیہ کو ختم کیا جس سے ذمی بے حد متاثر ہوئے اور وہ اسلام میں پہلے سے زیادہ شوق وذوق کے ساتھ داخل ہونے لگے۔ اگرچہ اس سے بیت المال کی آمدنی اچھی خاصی متاثر ہوئی لیکن آپ نے اس کی مطلق پروا نہ کی۔ چنانچہ آپ نے والی خراسان جراح بن عبداللہ حکمی کو باضابطہ حکم لکھ بھیجا کہ نومسلم ذمیوں کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔[3] پھر ذمیوں کو اسلام لے آنے کی دعوت بھی دی، اور والی خراسان کو یہ حکم بھی لکھ بھیجا کہ ’’وہ ذمیوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر کوئی مسلمان ہوتا ہے تو اس کا جزیہ ختم کیا جائے اور اس کے حقوق وواجبات مسلمانوں جیسے مقرر کیے جائیں۔‘‘[4] جس کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ بخوشی اسلام میں داخل ہوئے اور خود والی خراسان کے ہاتھ پر چار ہزار ذمیوں نے اسلام قبول کیا۔[5] ایسا ہی مغرب میں بھی ہوا۔ چنانچہ والی مغرب اسماعیل بن عبداللہ بن ابی مہاجر کے ہاتھ پر بے شمار بربروں نے اسلام قبول کیا۔[6]
یہ واقعات بتلاتے ہیں کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ حکمت اور نیک نصیحت کے ساتھ اسلام کی دعوت دینے میں کتنی گہری نگاہ رکھتے تھے جس کے نہایت قابل قدر ایجابی نتائج نکلے، بلکہ بعض تو ایسے پختہ مسلمان بنے کہ جہاد میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے اور بعض نے رعایا ہوتے ہوئے اور مسلمانوں میں رہتے ہوئے مجاہدین کی زبردست مالی امداد کی۔ انہی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں خلافت اسلامیہ کے یہ ذمی دوسروں سے بدرجہ اولیٰ اسلام کی دعوت دیئے جانے کے لائق تھے۔
[1] الطبقات: ۵/ ۳۵۰۔
[2] ایضًا
[3] تاریخ الطبری نقلا عن عمر بن عبدالعزیز و سیاستہ فی رد المظالم: ۱۷۴۔
[4] الطبقات: ۵/ ۳۸۶۔
[5] ایضًا
[6] فتوح البلدان: ص ۲۳۲،۲۳۳۔