کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 368
مالکی روایت کرتے ہیں کہ جب ۱۲۲ہجری میںطنجہ کے مقام پر خارجیوں نے حنظلہ بن صفوان کے خلاف خروج کیا تو حنظلہ نے انہی علماء کو اکٹھا کیا جن کو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے شمالی افریقہ بھیجا تھا۔ ان علماء نے مسلمانوں کی علمی اور عملی رہنمائی کے لیے یہ رسالہ لکھا: ’’کتاب وسنت کے سب علماء جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں دس قسم کی آیات مذکور ہیں جن میں یہ مضامین ہیں: ’’امربالمعروف، نہی عن المنکر، جنت کی بشارت، جہنم کا ڈراوا، اگلوں پچھلوں کی خبریں، محکم آیات جن پر عمل واجب ہے، متشابہ آیات جن پر ایمان لانا واجب ہے، حلال پر عمل کرنے کا حکم دینے والی آیات اور حرام سے روکنے والی آیات اور امثال ومواعظ‘‘ پس جس نے امر بالمعروف کرنے والی آیات کی اطاعت کی اور روکنے والی آیات نے اس کو روک دیا تو وہ جنت کی بشارت دینے والی آیات کی بشارت لے لے اور اس نے جہنم سے ڈر کر دکھلا دیا، اور جس نے قران کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانا اور اختلافی امور میں علم کو اللہ کی طرف پھیر دیا اور ساتھ ہی واضح طاعت اور نیک نیت بھی رکھی تو بے شک وہ کامیاب ہوا اور فلاح پا گیا۔ اور اس نے نجات پائی اور اسی کو دنیا وآخرت کی زندگی نصیب ہوئی۔ ’’والسلام‘‘[1]
بے شک یہ رسالہ ایک زبردست علمی وثیقہ اور دستاویز شمار کیا جاتا ہے جو بتلاتا ہے کہ اس علمی وفد کی علمی بنیاد کیا تھی اور ان کے سامنے کون سے شرعی مقاصد تھے، اس رسالہ کی افادیت کے پیش نظر اس کو پورے افریقہ کے منبروں پر پڑھ کر سنایا گیا تھا۔[2]
۵۔ ہند وغیرہ کے ملوک وحکام کی طرف سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دعوتی خطوط
آپ نے ہند کے ملوک وحکام کو دعوتی خطوط روانہ کیے اور انہیں اس شرط پر اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی کہ ان کے علاقوں پر انہی کی حکومت برقرار رہے گی اور ان کے حقوق و واجبات بھی وہی ہوں گے جو باقی مسلمانوں کے ہیں جیسا کہ گزشتہ میں بیان کیا جا چکا ہے، آپ کی سیرت وعدالت کا چرچا سن کر جیشبہ بن داہر اور دوسرے ملوک ’’اسلام‘‘ لے آئے۔[3] اور اپنے عربی نام رکھ لیے۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور یزید بن عبدالملک کے ادوار تک ملوک سندھ مسلمان بن کر اپنے اپنے علاقوں پر حکمران رہے۔[4] آپ نے ان لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ان کی طرف علماء روانہ کیے۔[5] اسی طرح آپ نے ماوراء النہر کے ملوک کو بھی دعوت اسلام کے خطوط لکھے جس کے نتیجے میں بعض حاکموں نے اسلام قبول کر لیا۔[6] جبکہ قیصرِ روم ’’الیون‘‘ کی طرف آپ نے عبدالاعلیٰ بن ابی عمرہ کی قیادت میں دعوتِ اسلام کے لیے ایک وفد بھیجا تھا۔[7]
[1] ریاض النفوس للمالکی: ۱/ ۱۰۲۔ ۱۰۳۔
[2] عصر الدولتین: ص ۴۸۔
[3] فتوح البلدان: ص ۴۲۸۔
[4] الکامل فی التاریخ نقلا عن عمر بن عبدالعزیز وسیاستہ فی ردّ المظالم: ص ۱۷۳۔
[5] عمر بن عبدالعزیز وسیاستہ فی رد المظالم: ص ۱۷۳۔
[6] فتوح البلدان: ص ۴۱۵۔
[7] البدایۃ والنھایۃ نقلا عن عمر بن عبدالعزیز وسیاستہ فی رد المظالم: ص ۱۷۳۔