کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 367
میں شامل کر لیا گیا جو شمالی افریقہ کی تعلیم و تربیت پر تعینات کیا گیا تھا، البتہ آپ کی اس رسمی تعیناتی کے صرف ایک سال بعد ۱۰۰ہجری میں وفات ہوگئی تھی، لیکن اس کے باوجود مالکی آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’اہل افریقہ نے آپ سے بھر پور استفادہ کیا۔‘‘ آپ نے اہل قیروان میں علوم کو پھیلایا اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حدیث کو بیان کیا جو قیروان میں داخل نہ ہوئے تھے، اور جو قیروان تشریف لائے تھے ان کی حدیث کو تو خوب پھیلایا، آپ نے حفرت ابن عمر، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت ابن عمرو اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہم کی احادیث کو بیان کیا، جب کہ اہل قیروان میں سے عبدالرحمن بن زیاد، ابوکریب جمیل بن کریب قاضی (متوفی ۱۳۹ہجری) وغیرہ نے آپ سے حدیث کو بیان کیا، آپ بے حد نیک صالح اور سنت پھیلانے کے بے حد حریص تھے، آپ نے قیروان کی علمی زندگی بالخصوص علم حدیث کو بے حد متاثر کیا، آپ نے مجالس علمیہ کے انعقاد کے لیے قیروان میں ایک مسجد تعمیر کی۔ علمائے نقد نے آپ کی توثیق پر اجماع نقل کیا ہے، مسلم، محدثین اربعہ امام احمد وغیرہ نے اور ابن وہب نے اپنی ’’جامع‘‘ میں آپ سے حدیث نقل کی ہے۔[1]
وہب بن حیی معافری:……ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے کہ بعض نے آپ کے نام کو الٹا کر حیی بن وہب ذکر کیا ہے، لیکن ابو زرعہ نے اس کی تصحیح کر کے اسے وہب بن حي بتلایا ہے۔ افریقہ میں بہت پہلے جہاد کی غرض سے آئے تھے، کیونکہ ’’الریاض‘‘ اور ’’المعالم‘‘ کی روایت کے مطابق آپ کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما (المتوفی ۶۸ہجری) سے اہل مغرب کے برتنوں کے بارے میں سوال کرنے کا ذکر ہے۔ آپ سیّدنا عمر رحمہ اللہ کے علمی وفد میں سے ایک تھے، قیروان رہ پڑے، خوب علم پھیلایا اور یہیں آسودئہ خاک ہوگئے۔ آپ نے اہل قیروان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی حدیث کو بیان کیا، آپ نے مرسل احادیث بھی روایت کیں، اہل قیروان میں سے عبدالرحمن بن زیاد افریقی وغیرہ نے آپ سے حدیث بیان کی ہے، مآخذ علمیہ آپ کی جرح وتعدیل میں سے کچھ بھی ذکر نہیں کرتے۔[2]
یہ ان دس فقہاء کا ایک اجمالی تذکرہ ہے جو تابعین میں سے بلند پایہ علماء تھے جن کو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے شمالی افریقہ بھیجا تھا، آپ کا ان فقہاء کا ساتھ بڑا نیک گمان تھا، یہ دوسروں کے لیے نیک نمونہ تھے ان لوگوں نے اہل بلاد کو احکام دینیہ کی تعلیم دی۔[3] ان لوگوں کے قرآن کریم، اس کی تفسیر اور حدیث شریف کی نشر واشاعت میں اور عملی سنتوں اور عقائد صحیحہ کے پھیلانے میں زبردست آثار ہیں۔ ان علماء نے بربروں میں احکام اسلام کو راسخ کرنے اور بیرونی غارتوں کا مقابلہ کرنے میں شمالی افریقہ کے امراء کی زبردست مدد کی۔
[1] عصر الدولتین، ص: ۴۶۔
[2] مدرسۃ الحدیث بالقیروان: ۲/ ۱۴۔۲۲۔
[3] عصر الدولتین: ص ۴۷۔