کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 364
ہو جائے۔
ج: لوگوں کو رب تعالیٰ کی مضبوط ترین رسی ’’قرآن کریم‘‘ کے ساتھ جوڑنے کا خصوصی اہتمام کیا۔ اس غرض کے لیے آپ نے بلاد اسلامیہ میں جا بجا حفظ وتجوید کے مکاتب کھولے۔
د: اہل سنت کے عقائد کو خوب کھول کر بیان کیا۔
ہ: اور لوگوں کو حلال وحرام کی تعلیم سے آراستہ کیا۔[1]
بہرحال سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی شمالی افریقہ میں کی جانے والی ان مساعی کی برکات کا ظہور ہونے لگا۔ ذیل میں شمالی افریقہ بھیجے جانے والے فقہاء اور ان پر متعین کیے جانے والے نیک امراء کا ترجمہ اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
اسماعیل بن عبیداللہ بن ابی مہاجر……سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے محرم ۹۹-۱۰۰ہجری میں انہیں افریقہ کا امیر مقرر کیا۔ اسماعیل بے حد نیک تھے، ابن خلدون لکھتے ہیں: ’’اسماعیل کے دور امارت میں سب بربر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے، سیّدنا عمر نے اہل افریقہ کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے ان کے ساتھ دس فقہاء اور علماء بھی روانہ کیے تھے جو لوگوں کو حلال وحرام کی تعلیم دیتے تھے۔[2] اسماعیل بے حد عابد وزاہد، نیک اور متورع عالم تھے، تواضع وانکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی، دین اسلام پھیلانے کے بے حد حریص تھے، آپ نے لوگوں کے ساتھ بے حد عادلانہ سلوک کیا، آپ کو احادیث نبویہ خوب یاد تھیں، اصحاب ستہ (سوائے ترمذی کے) اور امام احمد وغیرہ نے آپ سے حدیث روایت کی ہے، ابنِ عساکر آپ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ہمیں قرآن کی طرح حدیث بھی یاد کرنی چاہیے۔‘‘ آپ نے قیروان میں تینتیس سال کی مدت تک معلم اور ناشر سنت بن کر قیام کیا، اور ۱۳۱ہجری میں وہیں وفات پائی۔[3]
اسماعیل دینی و ایمانی صلاحیتیوں اور علم و ورع کے جامع تھے، آپ کی کاوشوں کے نتیجہ میں شمالی افریقہ میں اسلام بڑی مضبوط بنیادوں پر پھیلا، بلا شبہ اسماعیل کی شخصیت امراء واحکام کے لیے ایک نمونہ ہے۔
ابو ثمامہ بکر بن سوادہ جذامی (متوفی ۱۲۸ہجری):……آپ نے شمالی افریقہ میں تیس سال سے زیادہ عرصہ تک ایک عالم محدث، مفسر، مفتی اور فقیہ کی حیثیت سے قیام کیا، وہاں کی عوام نے آپ کی شخصیت سے بھر پور استفادہ کیا، اور آپ سے حدیث بھی روایت کی۔ ابو ثمامہ نے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے حضرت عقبہ بن عامر، حضرت سہل بن سعد ساعدی، حضرت سفیان بن وہب خولانی رضی اللہ عنہم وغیرہ کی احادیث کو قیروان
[1] الشرف والتسامی بحرکۃ الفتح الاسلامی، از دکتور صلابی : ص ۳۰۶۔ ۳۰۷ ۔
[2] تاریخ الفتح العربی فی لیبیا: ص ۱۴۸۔
[3] مدرسۃ الحدیث بالقیروان، ۲/ ۱۴- ۲۲۔