کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 363
لیے تجارت کا رستہ پیدا کرے گا۔‘‘[1]
۴۔ علمائے ربانی کو شمالی افریقہ بھیجنا
آپ نے شہروں بلکہ دیہاتوں تک کی طرف علماء کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور ان میں دین کی سمجھ پیدا کریں۔ چنانچہ آپ نے یزید بن ابی مالک اور حارث بن محمد کو اہل بادیہ کی تعلیم سنت کے لیے روانہ کیا اور ان کا وظیفہ بھی مقرر کیا۔ جس کو یزید نے تو لے لیا لیکن حارث نے لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’اللہ نے جو علم مجھے سکھایا ہے میں اس کی تعلیم پر کوئی معاوضہ نہ لوں گا۔‘‘ جب آپ کو دونوں کی بابت بتلایا گیا تو فرمایا: ’’جو یزید نے کیا اس میں کوئی حرج نہیں اور اللہ ہمیں حارث جیسے اور بہت سارے لوگ دے۔‘‘[2]
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا یہ جواب واضح کرتا ہے کہ ایک مسلمان حکمران کے اندازِ فکر میں کس قدر نرمی اور لچک ہونی چاہیے، اور اس میں فکری جمود جیسے نظریاتی مرض کا نہ ہونا از حد ضروری ہے۔ چنانچہ ایک طرف آپ نے امور دینیہ کی خدمات کا معاوضہ لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا، وہیں دوسری طرف آپ نے اس بات کی دعا بھی کی کہ اللہ ایسے لوگ کثرت کے ساتھ پیدا کرے جو دینی خدمات کو بلا معاوضہ محض اللہ کے لیے سر انجام دیں۔[3]
چنانچہ آپ نے امام ربانی، مفتی ثبت جناب نافع مولیٰ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو مصر بھیجا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ’’عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے نافع کو مصر بھیجا تاکہ وہ انہیں سنن کی تعلیم دیں۔[4]اور مدرسہ مصریہ کے تقریباً بیس فقہاء تابعین کو شمالی افریقہ بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن واحادیث کی اور علم دین کی تعلیم دیں تاکہ اس خیر میں وہ بھی شامل ہو جائیں جو ان کے حجازی، شامی اور عراقی مسلمان بھائیوں کو حاصل ہے اور شہر یعنی حجاز، شام اور عراق علم کے قلعے تھے۔[5]آپ نے وہاں کے لوگوں کو علوم دینیہ سے آراستہ کرنے اور ان کی عقلوں اور دلوں کو فتح کرنے کے لیے دس علمائے ربانی روانہ کیے اور ان اقالیم کے تعلیمی منصوبے کے لیے مندرجہ ذیل اہداف کو اپنے سامنے رکھا:
الف: ان لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ان علمائے ربانی کا انتخاب کیا جو علم و فقہ اور دعوت و تربیت میں مشہور تھے۔
ب: بربری قبائل سے ناخواندگی کو ختم کرنے اور انہیں لغت عربیہ میں ماہر بنانے کے لیے طویل المیعاد تعلیمی منصوبے تشکیل دیئے۔ تاکہ عربیت پر دسترس پانے کے بعد انہیں قرآن کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا آسان
[1] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحکم نقلاً عن عمر للزحیلی : ۷۴۔
[2] سیرۃ عمر، لابن عبدالحکم: ص ۱۶۰۔
[3] ملامح الانقلاب الاسلامی: ص ۱۸۴۔
[4] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۹۷۹۔
[5] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ، ص: ۶۹۔