کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 362
اسی طرح جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مغازی بیان کرتے تھے اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مناقب سناتے تھے، اور جو لوگ واعظین ومبلغین تھے آپ نے ان سب کے لیے بیت المال سے وظائف جاری کیے۔ ابن شیبہ ذکر کرتے ہیں: ’’جب آپ مدینہ میں تھے تو آپ نے ایک آدمی کو عبرت آمیز قصے بیان کرنے کو کہا اور اس کام کے لیے اس کا ماہانہ دو دینار وظیفہ مقرر کیا۔ پھر جب ہشام بن عبدالملک خلیفہ بنے تو انہوں نے اس شخص کا وظیفہ چھ دینار سالانہ کر دیا۔‘‘[1]
ابن عبدالبر نے یحییٰ بن ابی کثیر سے ایسا ہی ایک خط روایت کیا جس میں خادمانِ علوم اسلامیہ کے لیے وظائف مقرر کرنے کا ذکر ہے۔ چنانچہ ابن ابی کثیر بیان کرتے ہیں: ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے عمال کو یہ خط لکھا کہ طالبان علوم دینیہ کے لیے وظائف جاری کرو تاکہ وہ فراغت قلبی کے ساتھ علوم دینیہ کے حصول میں لگے رہیں۔‘‘[2]
۲۔ علوم دینیہ کی نشر واشاعت پر علماء کو ابھارنا
آپ نے علماء کو اس بات کی زبردست ترغیب دی کہ وہ علوم دینیہ کو لوگوں میں عام کریں۔ اور وہ مساجد کو تعلیم کے مراکز بنائیں جہاں بیٹھ کر وہ لوگوں کو ان کے امور کی تعلیم دیں۔ طلباء کو پڑھائیں۔ احادیث کا املاء کروائیں اور سنت کو زندہ کریں۔[3]
عکرمہ بن عمار یمنی بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا خط سنا ہے، آپ فرماتے ہیں: امابعد! اہل علم کو اس بات کا حکم دو کہ وہ مساجد میں علم پھیلائیں۔ کیونکہ (اس سے قبل) سنت کو مار دیا گیا تھا۔‘‘[4] (اب اس کو زندہ کیا جائے)
ابن عبدالبر جعفر بن برقان رقی تک (رقہ یہ شرقی سوریا کا ایک شہر ہے، اس کی طرف نسبت کر کے رقی کہتے ہیں) سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہماری طرف یہ خط لکھا ہے: ’’امابعد! آپ کے ہاں جو اہل علم وفقہ ہیں انہیں اس بات کا حکم کیجئے کہ وہ اپنی مجالس ومساجد میں ان علوم کی نشرواشاعت کریں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔‘‘[5]
۳۔ امت کو علوم دینیہ کی اہمیت کی طرف متوجہ کرنا
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر تم سے ہو سکے تو عالم بنو وگرنہ متعلم بنو اور نہیں تو ان سے محبت ہی کرو اور کچھ نہ ہو سکے تو ان سے بغض مت رکھنا‘‘ پھر فرمایا: ’’جس نے یہ بات مان لی اللہ اس کے
[1] اخبار المدینۃ نقلاً عن عمر بن عبدالعزیز: ص ۷۳۔
[2] جامع بیان العلم: ۱/ ۲۲۸۔
[3] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ: ص ۷۳۔
[4] اصول الحدیث: ص ۱۷۸۔
[5] جامع بیان العلم: ۱/ ۱۴۹۔