کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 361
کے ساتھ ان تک پہنچانا تھا۔[1] چنانچہ قرآن کے حافظ و قاری کے ذمے لوگوں کو قرآن پڑھانا، یاد کرانا اور اس کے احکام کی تعلیم دینا تھا۔ محدث کے ذمے احادیث نبویہ کے درس واملاء کی مجالس قائم کرنا اور ان کو پھیلانا تھا۔ فقیہ کے ذمے کتب دینیہ میں غور و فکر کر کے احکام کا استنباط اور پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنا تھا تاکہ وہ لوگوں کو ان کے امور دینیہ کی تعلیم دیں اور لوگ کامل بصیرت کے ساتھ رب تعالیٰ کی عبادت کریں۔ جب کہ ایک طالب علم اور متعلم کے ذمہ تھا کہ وہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر کامل یکسوئی کے ساتھ صرف اور صرف علم حاصل کرے۔ اب سب کی معاشرتی ذمہ داریاں اور معاشی ضروریات بھی تھیں۔ چنانچہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان سب طبقوں کی مالی اور معاشی کفالت خلافت اسلامیہ کے ذمہ کر کے انہیں ہر قسم کے فکر وغم سے آزاد کر دیا تاکہ وہ خود بھی اور ان کے اہل خانہ بیوی بچے سب لوگ ایک باعزت اور پر وقار زندگی گزار سکیں۔ سبحان اللہ! سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کیا خوب کیا…! ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس پر وقار تدبیر سے آپ نے ہر اس شخص کے جذبات کو مہمیز اور انگیخت کیا جس کے دل میں دین اسلام اور تعلیماتِ اسلامیہ کو پھیلانے کی ادنیٰ سی بھی آرزو تھی۔[2] آپ نے تمام بلاد اسلامیہ میں یہ اعلان کر دیا کہ جو بھی جامع مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کی تعلیم و تربیت کرنے کی ذمہ داری کو سنبھالے گا اور لوگوں میں علوم کی اشاعت اور دین میں تفقہ پیدا کرے گا اور مسلمانوں کی اولادوں کو قرآن کریم پڑھنا سکھلائے گا اس کو بیت المال سے ماہانہ سو دینار دیئے جائیں گے۔[3] ابوبکر بن ابی مریم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے حمص کے والی کو یہ حکم لکھ بھیجا کہ اہل صلاح کے لیے بقدر کفایت وظیفہ بیت المال سے جاری کرو تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ قرآن وحدیث کے درس و تدریس میں مشغول رہیں۔‘‘[4] ابن ابی مریم سے روایت ہے کہ آپ نے والی حمص کو یہ بھی لکھ بھیجا : ’’جن لوگوں نے خود کو فقہ کی خدمت میں وقف کر رکھا ہے اور انہوں نے دنیاوی کاموں کو ترک کر کے کوئی دینی خدمت سنبھال رکھی ہے۔ ان کے احوال کی جستجو کرو اور انہیں ماہانہ ایک سو دینار وظیفہ بیت المال سے دو تاکہ وہ آسودگی قلب کے ساتھ اپنی دینی خدمات میں مشغول رہیں۔ لہٰذا میرا یہ خط ملتے ہی ان کا وظیفہ جاری کر دو، کیونکہ سب سے اچھی خیر وہ ہے جس کو بلا تاخیر جاری کر دیا جائے… والسلام علیک[5]
[1] ملامح الانقلاب الاسلامی فی خلافۃ عمر بن عبدالعزیز: ص ۱۸۴۔ [2] عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ : ص ۷۲۔ [3] ملامح الانقلاب الاسلامی: ص ۱۸۴۔ [4] اصول الحدیث: ص ۱۷۸۔ [5] البدایۃ والنھایۃ نقلاً عن عمر بن عبدالعزیز، از عبدالستار شیخ: ص ۷۲۔