کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 360
مسلمان قیدی کو ہمارے پاس نہ بھیجو گے تو اللہ کی قسم! میں اتنا بڑا لشکر بھیجوں گا جس کا پہلا دستہ تمہارے پاس اور آخری دستہ میرے پاس ہوگا۔‘‘[1]
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیاست مرحلہ وار تھی جو خلافت اسلامیہ کی سرحدوں کی حفاظت کرنے، عقلوں کو فتح کرنے اور اسلام میں داخل ہونے والی نسل نو کے دلوں کو زندہ کرنے اور ان کے نفوس کے تزکیہ کی بنیادوں پر قائم تھی۔ اسی لیے آپ نے اپنی مساعی اور سرگرمیوں کا آغاز خلافت اسلامیہ میں آباد دیہاتیوں اور تعلیماتِ اسلامیہ کی از حد محتاج قوموں کی طرف علماء اور مبلغین کو بھیجنے سے کیا۔
۸… عمومی دعوت کا اہتمام
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خلافت اسلامیہ کی وحدت کو مضبوط بنانے، امن قائم کرنے اور امت کے ہر ہر فرد تک علم کی دولت پہنچانے کے لیے داخلی امور کی اصلاح کی طرف خاص توجہ دی۔ اور اس غرض کے حصول کے لیے ہر ممکن رستہ اختیار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدل کی فضا قائم کی اور مسلمانوں کے مختلف طبقات میں چلی آتی دیرینہ عداوتوں کو بھی حتی الامکان ختم کرنے کی تدبیریں اختیار کیں۔ آپ کا ہدف لوگوں کے دل، ان کی عقلیں اور ان کے نفس تھے۔ جن کو آپ نے تعلیماتِ اسلامیہ کے ذریعے فتح کر لیا۔ اور اس غرض کے لیے آپ نے عظیم منصوبے تشکیل دئیے۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ محض خیالی پلاؤ پکانے والے انسان نہ تھے بلکہ آپ ایک عملی انسان تھے۔ سوچتے اور بہت دور کی سوچتے تھے لیکن عملی اقدامات سوچ کی حدود سے بھی آگے کے اٹھاتے تھے۔ چنانچہ پہلے آپ رستہ ہموار کرتے پھر مناسب ماحول پیدا کرتے اور پھر ایک منصوبے کو عملی شکل دیتے۔ آپ ایسے اسباب اکٹھے کرتے جن کی مدد سے عملی تطبیق کی صورتیں پیدا ہوتی چلی جاتی تھیں۔ ذیل میں ان اسباب کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے جن کی مدد سے آپ اپنے دعوتی اور تربیتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔
۱۔ مبلغین کے لیے ’’قانون تفرغ‘‘ کا قیام واجراء
تفرغ سے مراد یہ ہے کہ خلافت اسلامیہ نے علماء، دعاۃ اور مبلغین کو معاشی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا اور ان کی کفالت کا ذمہ خود اٹھا لیا تاکہ وہ دل و دماغ کی کامل آسودگی اور فراغت کے ساتھ اپنے ان فکری اور دعوتی منصوبوں پر کام کر سکیں جن کا انتخاب یا تو انہوں نے خود کیا تھا یا پھر خلافت اسلامیہ نے ان کو وہ اہم منصوبے سپرد کیے تھے۔ چنانچہ اس غرض کے لیے آپ نے ایک باقاعدہ محکمہ تشکیل دیا جس کے ذمے علماء کی علمی حیثیت اور دعوتی ذمہ داریوں کے حساب سے ان کے مشاہرے اور تنخواہیں مقرر کرنا اور ان کو باقاعدگی
[1] العلاقات العربیۃ البیزنطیۃ: ص ۱۳۱۔