کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 359
نا کہ یہ بات تھی کہ آپ عسکری اداروں کے وجود کو غیر مفید سمجھتے تھے اور نہ یہ بات تھی کہ آپ کی دشمنوں کی یورشوں اور یلغاروں پر نظر نہ تھی۔ آپ تو بس مزید توسیعی اقدامات میں وقتی طور پر ایک قسم کا وقفہ چاہتے تھے تاکہ پہلے خلافت کو اندرونی طور پر مستحکم کیا جائے۔ پھر اسلامی قلمرو کی توسیع کی طرف توجہ دی جائے)۔ [1]
چنانچہ جب ترکوں نے آذربائیجان کے مسلمانوں پر غارت ڈال کر مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر دیا اور ان کے اموال بھی لوٹ لیے تو آپ نے اسی وقت حاتم بن نعمان باہلی کو ان کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ حاتم ان پر بلائے بے درماں بن کر ٹوٹے۔ سوائے معدودے چند کے جو بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ کسی کو بھی نہ چھوڑا اور سب کو کیفرکردار تک پہنچا کر دم لیا۔ اور جو بچ گئے وہ گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کیے گئے، جن کی تعداد پچاس بتلائی جاتی ہے۔[2] ۱۰۰ہجری میں رومیوں نے لاذقیہ کے ساحل پر حملہ کر کے شہر کو تباہ کر دیا اور وہاں کے مسلمان باشندوں کو گرفتار کر لیا تو آپ نے اس شہر کی تعمیر نو اور مضبوطی کا حکم دیا۔[3]۱۰۱ہجری میں جب گرمیوں میں اہل حمص نے حملہ کیا تو آپ نے ان کی سرکوبی کے لیے ولید بن ہشام معیطی اور عمرو بن قیس کندی کو روانہ کیا۔[4]اور حکم دیا کہ وہ اہل طرندہ[5]کو ان کے ناچاہنے کے باوجود وہاں سے دوسری جگہ منتقل کر دیں تاکہ وہ رومیوں کی یلغاروں اور شورشوں سے محفوظ رہیں۔[6]
رومی اکثر ’’مصیصہ‘‘ پر غارتیں ڈالتے تھے آپ نے اس شہر کو ختم کرنے اور ڈھا دینے کا ارادہ کر لیا۔ لیکن پھر آپ نے یہ ارادہ ترک کر دیا اور ’’کفرییا‘‘ کی جانب اہل مصیصہ کے لیے ایک جامع مسجد تعمیر کی اور اس میں پانی کا ایک بہت بڑا حوض بھی بنوایا جس پر آپ کے نام کی تختی لگی تھی۔[7] اور اسی شہر کو انطاکیہ کی جانب سے رومیوں کی آئے روز کی جارحیت روکنے کے لیے ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔[8]
اگرچہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے رومیوں کے ساتھ جاری فوجی سرگرمیوں کو ایک حد تک محدود کر دیا تھا، اور آپ نے قسطنطنیہ کا حصار بھی اٹھا لیا تھا اور بلاد روم میں مزید قلعوں کی تعمیر کا کام بھی روک دیا تھا، لیکن اس سب کے باوجود آپ اپنا حق لینے اور اس کا دفاع کرنے میں بے حد حساس اور پر جوش تھے، جیسا کہ ابن عبدالحکم کی ایک نابینا قیدی سے متعلق روایت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس کا تفصیلی قصہ گزشتہ میں بیان کیا جا چکا ہے۔ جس میں آپ نے رومی حاکم کو قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ ’’اگر تم اس مظلوم نابینا
[1] علامہ علی محمد الصلابی نے اس مقام پر نہایت اختصار سے کام لیا ہے اس لیے ہم نے قوسین میں اس وضاحت کو پیش کرنا ضروری سمجھا۔ (مترجم)
[2] تاریخ خلیفۃ: ص ۳۲۶۔
[3] فتوح البلدان: ص۲۰۔
[4] تاریخ الطبری نقلا عن عمر بن عبدالعزیز للعلی: ص۱۴۲۔
[5] طرندہ: دولت رومانیہ کا ایک قریبی علاقہ۔
[6] فتوح البلدان: ص ۲۲۰۔
[7] فتوح البلدان: ص ۱۶۳۔
[8] العلاقات العربیۃ البیزنطیۃ: ص ۱۱۹۔