کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 358
(مزید) جنگ نہ کرو۔‘‘ اور ان علاقوں کو مضبوطی سے قبضہ میں رکھو جو تم فتح کر چکے ہو۔[1] اب سندھ کے محاذ کا حال بھی سن لیجئے! آپ نے ملوک سندھ کو اسلام کی دعوت کے ساتھ اس شرط پر خلافت اسلامیہ کی فرمانبرداری کی طرف بلایا کہ وہاں کی حکومت انہی لوگوں کے قبضہ میں رہے گی۔ اور ان کے حقوق وواجبات وہی ہوں گے جو باقی سب مسلمانوں کے ہیں۔ اہل سندھ تک سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی سیرت و کردار اور مذہب کی خبریں پہنچ چکیں تھیں۔ چنانچہ آپ کی دعوت پر جیشہ بن داہر اور دوسرے ملوک اسلام لے آئے اور اپنے نام بدل کر عربوں جیسے نام رکھ لیے۔ سندھ کی حدود پر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی طرف سے عمرو بن مسلم باہلی عامل تھا۔[2] یہاں پر اس نکتہ کی وضاحت کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا مجاہدین کو مزید جنگی کاروائیوں سے روکنے اور دور دراز کے محاذوں پر تعینات مجاہدوں کو ان کی سرفروشانہ کاروائیوں سے ہٹا کر انہیں خلافت کی خدمت میں استعمال کرنے اور مسلح جنگی کاروائیوں کو روک کر پر امن مذاکرات کا رستہ کھولنے کا یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ آپ اس عسکری ادارے کا وجود ختم کر دینا چاہتے تھے جس کی بنیادیں حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے جا ملتی تھیں اور جس ادارے کا خلافت اسلامیہ کی حفاظت وحمایت اور توسیع و ترقی میں اور اسلامی قلمرو میں امن کے استقرار میں مرکزی اور اہم ترین کردار تھا اور ہر دور میں رہے گا۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مجاہدین اور ان سے متصل تمام اداروں کا مدنی حیات کی بنیادوں کے ساتھ گہرا تعلق تھا کسی بھی مملکت کے لیے اپنی سرحدات کی حفاظت اور پیش آمدہ خطرات سے نبٹنے کے لیے ’’عسکری ادارے‘‘ کا وجود ناگزیر ہے۔ اس لیے افواج اور ان سے متصل تمام اداروں کا وجود باقی رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ اسلامی قلمرو کے تمام بلاد وامصار افواج اسلام کی چھاؤنیاں بن کر باقی اور قائم رہے اور کسی بھی جگہ سے کسی قسم کے براہ راست یا متعلقہ فوجی ادارے کو ہرگز بھی ختم نہ کیا گیا۔ اور نہ ان کی رہائشی یا ادارتی تنظیمات میں کسی قسم کی تبدیلی ہی کی گئی۔ (اس مقام پر یہ نازک اور اہم حقیقت بھی سامنے رہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور خلافت تکوینی طور پر بے حد مختصر تھا۔ جو گوناں گوں اضطرابات اور انتشارات کی زد میں رہا۔ آپ نے ایک ایسے وقت میں زمام خلافت اپنے ہاتھ میں لی تھی جب خلافت اسلامیہ کا معاشرتی اور اخلاقی داخلی اور بیرونی دونوں قسم کا نظام شدید ابتری اور بگاڑ کا شکار تھا جس کی تجدید واصلاح کی اشد ضرورت تھی۔ شاید انہیں داخلی ہنگاموں اور تجدیدی و اصلاحی کوششوں نے آپ کو مختلف محاذوں پر جنگی تحریکوں کو پورے اہتمام کے ساتھ جاری رکھنے کی مہلت نہ دی تھی۔ اور آپ سب محاذوں پر پوری توجہ نہ دے سکے تھے۔
[1] تاریخ خلیفۃ: ص ۳۲۶۔ [2] فتوح البلدان: ص ۴۲۔