کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 357
ومصائب، دشواریوں اور مشکلات سے دو چار ہونا پڑ رہا تھا۔ چنانچہ خلافت سنبھالتے ہی آپ نے مسلمہ بن عبدالملک کو قسطنطنیہ سے واپس چلے آنے کا سرکاری فرمان بھیج دیا، سلیمان نے قسطنطنیہ کی طرف بری اور بحری دونوں قسم کی فوجیں روانہ کی تھیں۔ قسطنطنیہ کے محاذ پر بڑی مشکلات اور بھوک سے دو چار ہونا پڑا۔ حتی کہ نمازیوں نے بھوک سے لاچار ہو کر چوپائے وغیرہ تک کھائے تھے۔ حتی کہ سواریاں کم پڑ گئیں تھیں سلیمان بن عبدالملک کے اس جنگی جنون سے سیّدنا عمر رحمہ اللہ بے حد مغموم رہتے تھے۔ چنانچہ خلافت سنبھالتے ہی آپ نے دیکھا کہ اس جنگ کو جاری رکھنا بے سود ہے اور اس میں مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں۔ اور اس میں مزید تاخیر کی ہرگز گنجائش نہیں۔ اس لیے آپ نے مسلمہ کو خط لکھنے میں عجلت سے کام لیا۔[1] اور اسے واپس آنے کو کہا اس وقت مسلمہ سر زمین روم میں اسلامی فوجوں کے ساتھ فروکش تھا۔ آپ نے ان کی مدد کے لیے عمدہ گھوڑے اور بہت سارا راشن بھی بھیجا اور وہاں کے لوگوں کو بھی حکم دیا کہ وہ مسلمہ اور اس کے لشکر کی مدد کریں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے پانچ سو عمدہ نسل کے گھوڑے بھیجے۔[2] اور خلیفہ بن خیاط کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ۹۹ہجری کا ہے۔[3] آپ نے سمع بن مالک خولانی کو اندلس کا والی بنایا تھا اور ان کو حکم لکھ بھیجا کہ اندلس خالی کر دیں۔ دراصل یہ آپ کی مجاہدین پر شفقت تھی۔ کیونکہ آپ کو اندیشہ تھا کہ دشمن ان پر غالب آجائیں گے۔ اور پیچھے سمندر ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی بروقت مدد پہنچنا بھی بے حد مشکل تھا۔[4] البتہ سمع بن مالک خولانی نے اندلس کو بالکل خالی کر دینا مناسب نہ سمجھا اور خلیفہ کو یہ لکھ بھیجا: ’’یہاں مسلمان کثرت سے ہیں اور اطراف واکناف میں پھیل گئے ہیں، اس لیے آپ اس تجویز کو چھوڑ دیجئے اور ساتھ ہی اس نے اندلس کو افریقی عمال سے خالی کر دیا۔[5]
ادھر مشرق میں والی خراسان عبدالرحمن کو آپ نے یہ خط لکھا کہ وہ ماوراء النہر سے مسلمانوں کو ان کی اولادوں اور خاندانوں سمیت واپس لے آئے۔
لیکن ان لوگوں نے یہ کہہ کر آنے سے انکار کر دیا کہ (خراسان کے صدر مقام) ’’مرو‘‘ میں اتنے خاندانوں کے آباد ہونے کی گنجائش نہیں۔ عبدالرحمن نے ماوراء النہر کے مسلمانوں کا یہ جواب آپ کو لکھ بھیجا تو آپ نے اس کے جواب میں یہ خط روانہ کیا کہ ’’اے اللہ! میں نے اپنا ذمہ پورا کر دیا اور اب مسلمانوں کو مزید جنگوں میں نہ لے جانا۔ ان کے لیے اتنے علاقے کافی ہیں جو اللہ نے ان کے لیے فتح کر دئیے ہیں۔[6] اور خلیفہ بن خیاط لکھتا ہے کہ ’’عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جراح بن عبداللہ حکمی کو صرف اتنا لکھا:
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۳۲۔
[2] تاریخ الطبری نقلا عن عمر بن عبدالعزیز للعلی: ص ۱۴۰۔
[3] تاریخ خلیفۃ: ص ۳۲۶۔
[4] تاریخ افتتاح الاندلس لابن القوطیۃ: ص ۱۲۔۱۳۔
[5] فجر الاندلس لحسین مؤنس: ص ۱۳۶۔۱۳۷۔
[6] تاریخ الطبری نقلًا عن عمر بن عبدالعزیز للعلی: ص۱۴۱۔