کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 356
خوبصورت کنکری کو چنا اور چونچ میں لے کر اڑ گیا۔‘‘ تو انہوں نے فرمایا: ’’اگر تیرا خواب سچا ہے تو سمجھ لو کہ حسن بصری وفات پا گئے۔‘‘ پھر تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ہر طرف حسن بصری کی وفات کا شور برپا ہوگیا۔[1] آپ کو آپ کے دو مایہ ناز شاگردوں ایوب سختیانی اور حمید الطویل نے غسل دیا۔ جبکہ نماز جمعہ کے فوراً بعد نضر بن عمر مقری نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔[2] حمید کہتے ہیں: حسن بصری رحمہ اللہ نے جمعرات کے دن کی رات کو وفات پائی (یعنی وہ شب جمعہ تھی) جمعہ کے دن ہم آپ کے غسل اور تکفین وغیرہ سے فارغ ہوگئے۔ اور نماز جمعہ کے بعد جنازہ پڑھا کر آپ کی تدفین کر دی آپ کے جنازہ میں بصرہ کے سب لوگ شریک تھے۔ تدفین وغیرہ کی مشغولیت کی بنا پر اس دن بصرہ کی جامع مسجد میں عصر کی نماز ادا نہ کی جا سکی۔ اور جب سے میں نے اسلام میں آنکھ کھولی تھی۔ شاید یہی وہ دن اور یہی وہ نماز تھی جو مسجد میں ادا نہ کی گئی تھی کیونکہ اس دن سب لوگ جنازہ گاہ کی طرف نکل گئے تھے اور مسجد میں نماز پڑھنے والا کوئی رہ نہ گیا تھا۔[3]
اللہ حسن بصری رحمہ اللہ پر رحم فرمائے جو حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور علمائے ربانی کے ورثاء کے لیے ایک بلند ترین نمونہ تھے، حسن بصری بڑے عظیم آدمی تھے۔ تمہیں ان کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔ زہد و ورع، علم وحکمت اور ادب وشجاعت میں عدیم النظیر شخصیت تھے۔[4]
حسن بصری کا شمار ان علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی علمی روحانی اور تربیتی خدمات ’’دولت فقہاء‘‘ میں سر انجام دیں جس کے خلیفہ اور صاحب امر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تھے۔ حسن بصری نے وعظ وتلقین کرنے، نصیحت وارشاد کرنے اور ہر خیر کی طرف متوجہ کرنے میں نہ تو کبھی زندگی کا کوئی لمحہ اور موقع ضائع کیا اور نہ کبھی اس فریضہ کو سر انجام دینے میں بخل سے کام لیا۔
۷… عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور
فتوحات اور قسطنطنیہ کے محاصرے کا اٹھا دینا
خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے آپ نے دور دراز کے علاقوں میں خلافت کی توسیع کا سلسلہ بند کیا اور اس بات کی کوشش کی کسی طرح سے جنگی محاذوں سے اسلامی افواج کو واپس بلا لیا جائے اور اس باب میں آپ نے سب سے پہلے قسطنطنیہ کا محاصرہ ختم کر کے وہاں پر مامور افواج کی بھاری تعداد کو واپس بلا لیا جن کو خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے اپنے بھائی مسلمہ کی قیادت میں قسطنطنیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا تھا۔ یہ محاصرہ گزشتہ دو سال سے بے نتیجہ جاری تھا۔ اور اس محاصرہ کو جاری رکھنے کے لیے اسلامی افواج کو بے شمار مصائب
[1] تاریخ الذہبی نقلا عن حیاۃ الحسن البصری: ص ۲۰۲۔
[2] وفیات الاعیان: ۲/ ۷۲۔
[3] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۸۷۔
[4] حیاۃ الحسن البصری: ص ۵۰۳۔