کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 355
تھا کہ مسلمہ بول اٹھے: ’’بس بس! بھلا جس قوم میں ایسا آدمی موجود ہو وہ کیونکر بھٹک سکتی ہے؟‘‘[1] ہشام بن حسان کہتے ہیں: ’’میں نے حسن بصری رحمہ اللہ کو قسم اٹھا کر یہ کہتے سنا: ’’جس نے بھی درہم ودینار کو عزت دی اللہ اسے ذلیل کر کے چھوڑے گا۔‘‘[2] حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ قول کس قدر عبرت آموز ہے کہ ’’درہم ودینار بے حد برے دوست ہیں کہ جب تک ان دونوں کو اپنے سے جدا نہ کر دیں یہ کسی کام کے نہیں۔‘‘[3] ۹۔ وفات حسن بصری رحمہ اللہ ہر شخص کو موت آنی ہے، بالآخر آپ کو بھی مرض الوفات نے آلیا۔ آپ کا بیٹا پہلو میں بیٹھا آپ کی تیمارداری کر رہا تھا اور آپ بستر پر لیٹے کثرت کے ساتھ ’’انا للہ‘‘ پڑھتے جاتے تھے۔ اس پر بیٹا بولا: ’’ابا جان! کیاآپ جیسا آدمی بھی دنیا سے جدا ہونے پر ’’انا للہ‘‘ پڑھتا ہے؟‘‘ آپ نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے جواب دیا: ’’بیٹے! میں اپنے نفس پر ’’انا للہ‘‘ پڑھ رہا کہ اس جیسا میں نے نہیں دیکھا۔‘‘[4] ابان بن محبر حسن سے روایت کرتے ہیں کہ ’’جب آپ پر جان کنی کا عالم طاری ہوا تو آپ کے اصحاب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’اے ابو سعید! (دنیا سے جا رہے ہو، جاتے جاتے) ہمیں چند ایسی باتیں بتا جائیے جو (آپ کے بعد) ہمارے کام آتی رہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’میں تمہیں تین باتوں کا توشہ دیتا ہوں، ان کو سننے کے بعد میرے پاس سے اٹھ کر چلے جانا (تو سنو! وہ تین باتیں یہ ہیں): (۱) جس بات سے دوسروں کو روکو سب سے زیادہ خود اس سے دور رہنا۔ (۲) جس بات کا دوسروں کو حکم دو، سب سے زیادہ اس پر عمل خود کرنا۔ (۳) اور جان لو کہ تمہارا ہرقدم دو میں سے ایک قسم کا ہے۔ یا تو وہ تمہارے حق میں ہے، یا پھر تمہارے خلاف ہے، خوب دیکھ لو کہ صبح وشام کہاں آتے جاتے ہو۔‘‘[5] آپ کی روح پرواز کر جانے سے پہلے آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ ذرا افاقہ ہوا تو کہنے لگے: ’’تم لوگوں نے مجھے باغوں، چشموں اور عزت والے مقام سے بیدار کر دیا۔‘‘[6] اور بقول آپ کے فرزند ارجمند عبداللہ بن حسن بصری کے[7] آپ نے یکم رجب المرجب ۱۱۰ہجری جمعہ کی رات کو[8] تقریباً اٹھاسی سال کی حیات مستعار پا کر جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ آپ کی وفات سے کچھ دیر پہلے ایک آدمی نے ابن سیرین رحمہ اللہ سے اپنے اس خواب کی تعبیر پوچھی کہ ’’میں نے ایک پرندے کو دیکھا کہ اس نے مسجد کی سب سے
[1] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۶۶۔ [2] ایضًا: ۴/ ۵۷۶۔ [3] ایضًا [4] ایضًا : ۴/ ۵۸۷۔ [5] حلیۃ الاولیاء: ۲/ ۱۵۴۔ [6] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۸۷۔ [7] تذکرۃ الحفاظ: ص۷۲۔ [8] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۸۷۔