کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 354
یہ تھا حسن بصری رحمہ اللہ کا امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے باب میں امن و سلامتی پر مبنی منہج وموقف۔ یہاں پر اس نکتہ کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ آپ نے مسلح بغاوتوں کی حمایت کیوں نہ کی؟ تو اس کے چند اسباب ہیں جن کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے: الف:حکمرانوں کے خلاف خروج کی دعوت دینے سے ملک اور بلاد وامصار میں انار کی اور لاقانونیت پھیلتی ہے جس سے امن برباد اور امور حیات تباہ ہو جاتے ہیں۔ لا قانونیت کے زمانے میں ایک گھڑی بھر میں جس قدر مظالم ڈھائے جاتے ہیں اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا ہے اتنا جبر واستبداد سالوں کی حکومتوں میں نہیں کیا جاتا۔ ب: آپ کی رائے یہ تھی کہ حکمرانوں کے خلاف خروج کا رواج جس قدر بڑھتا جائے گا، اسی قدر خلافت اسلامیہ کا ڈھانچہ کمزور پڑتا جائے گا اور خود مسلمانوں میں بغض و عداوت کو اسی قدر تقویت ملے گی، جس سے ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی اور آبرو ریزی کا چلن عام ہو جائے گا۔ ج: اور اس لیے بھی کہ خروج کے زمانے میں مسلمانوں کی ناحق خونریزی کی جاتی ہے اور لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری رہتی ہے۔ اور اکثر خروج کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عامۃ الناس ایک ظالم کے ہاتھوں سے نکل کر اس سے بھی بدتر ظالم کے پنجہ استبداد میں جکڑے جاتے ہیں۔ د: آپ کے نزدیک اس فساد کی اصلاح کا آسان اور سہل رستہ یہ تھا کہ اگر حکمرانوں کی اصلاح ممکن نہ ہو تو خود رعایا کی اصلاح کی جائے۔ وگرنہ فساد وخروج رعایا وحکمران دونوں طبقوں کو متاثر کرتا ہے۔ آپ کا اعتقاد تھا کہ جب تک خود قوم نہ سدھرے حکمران نہیں سدھرتے۔ بہرحال دونوں کی اصلاح میں باہم تلازم ضرور ہے۔[1] ۸۔ جس قوم میں ایسا آدمی ہو وہ کیونکر بھٹک سکتی ہے خالد بن صفوان کہتے ہیں: ’’میری مسلمہ بن عبدالملک سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے: ’’اے خالد! ہمیں حسن بصری کے بارے میں تو کچھ بتلاؤ؟‘‘ میں نے کہا: ’’اللہ تیرا بھلا کرے۔ میں تمہیں ان کے بارے میں وہ بات بتلاتا ہوں جس کا مجھے خود علم ہے۔ میں ان کا پڑوسی بھی تھا اور ہم مجلس بھی، میں جانتا تھا کہ ان کا ظاہر وباطن ایک اور قول وعمل یکساں تھا۔ جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو کر کے چھوڑتے اور جب کوئی کام شروع کر لیتے تو اس پر مداومت کرتے۔ جس بات کا دوسروں کو حکم دیتے، سب سے زیادہ خود اس پر عمل کرتے اور جس چیز سے روکتے، دوسروں کے ساتھ خود بھی اس سے رک جاتے۔ میں نے انہیں دیکھا کہ لوگوں سے بے حد مستغنی تھے۔ جبکہ لوگ ان کے (علوم ومعارف اور تزکیہ و تربیت کے) محتاج تھے۔‘‘ ابھی میں نے اتنا ہی کہا
[1] تاریخ الجدل: ص ۳۲۳۔