کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 353
اپنے گھروں میں بیٹھ رہو، اپنے ہاتھوں کو (خون ناحق سے) روک لو، اپنے آقا و پروردگار رب تعالیٰ سے ڈرو، اس ختم ہوتی اور ہاتھوں سے نکلتی دنیا کی خاطر ایک دوسرے کی گردنیں مت مارو جس میں دل کی طمع کم ہی پوری ہوتی ہے۔ دنیا والوں کو بقاء نہیں اور نہ دنیا ان کی کمائیوں سے راضی ہے۔ بے شک اکثر دنیا والے خطباء، سفیر، نادان، گم کردہ، سرگشتہ، حیران و پریشان اور متکبر ہیں۔ ان میں سے سلامت وہی ہے جو لوگوں میں ناآشنا گم نام، اور کسی کونے کھدرے میں چھپا ہوا ہو، اور اگر وہ مشہور ونامور ہو تو پھر متقی ضرور ہو۔‘‘[1] یہ خطبہ دینے کے بعد آپ نے یزید کے خلیفہ مروان بن مہلب کو سختی آمیز لہجہ میں مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: ’’مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ گم راہ ریا کار بوڑھا لوگوں کو روکے ہوئے ہے، اللہ کی قسم! اس کا حال تو یہ ہے کہ اگر اس کا پڑوسی اس کے مکان کی چھت کی ایک کڑی نکال لے تو اس کی نکسیر ہی بند نہ ہو۔ خدا کی قسم! یا تو یہ ہمارا برا ذکر کرنے سے اور ہم پر اپنے اوباش لوگوں اور فرات و بصرہ کے پیامبروں کو مسلط کرنا بند کر دے وگرنہ میں ان پر کھردری اور کندریتی چلا دوں گا۔[2] یہ سخت وعظ سن کر لوگ اٹھے اور حسن بصری رحمہ اللہ کے ساتھ ہوگئے اور کہنے لگے: ’’اگر ان لوگوں نے آپ کو ذرا بھی تکلیف دینا چاہی تو آپ کے حکم سے ہم ان کا مقابلہ کریں اور آپ کی حفاظت کریں گے اور آپ کا بال تک بیکا نہ ہونے دیں گے۔‘‘ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’پھر تو وہی بات ہو جائے گی کہ جس بات سے میں تم لوگوں کو روکنے آیا ہوں خود ہی اس کی مخالفت کروں، کہ میں تم لوگوں کو تو یہ حکم دوں کہ ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارو، پھر اسی بات کی تمہیں دعوت بھی دوں کہ میری وجہ سے ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔‘‘[3] (غرض میں تمہیں اس خونریزی کی ہرگز اجازت نہ دوں گا نہ اپنے لیے اور نہ کسی دوسرے کے لیے)۔ یہ تھا حسن بصری رحمہ اللہ کا ہر قسم کے فتنہ کے بارے میں موقف، آپ نے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کے لیے جان توڑ محنت وکوشش کی اور انہیں ہر قسم کی تفرقہ بازی سے شدت کے ساتھ روکا۔[4] سلم بن ابی ذیال سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے حسن بصری سے پوچھا، میں اور چند شامی لوگ یہ گفتگو سن رہے تھے کہ ’’اے ابو سعید! آپ یزید بن مہلب اور ابن اشعث کے فتنوں (اور بغاوتوں) کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: (ان فتنوں میں) نہ اِن کا ساتھ دینا اور نہ اُن کا۔‘‘ اتنے میں ایک شامی نے لقمہ دیتے ہوئے کہا، اور نہ امیرالمومنین کا اے ابو سعید!‘‘ (یعنی اگر امیرالمومنین بھی کوئی فتنہ برپا کر دے تو کیا اس کا بھی ساتھ نہ دیا جائے) تو آپ نے برجستہ فرمایا: ’’ہاں! امیرالمومنین کا بھی نہیں۔‘‘[5]
[1] تاریخ الطبری: ۷/ ۴۹۸۔ [2] ایضًا [3] تاریخ الطبری: ۷/ ۴۹۹۔ [4] حیاۃ الحسن البصری: ص۱۹۸۔ [5] الطبقات الکبری: ۷/ ۱۲۱۔