کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 352
کی جائز تقسیم کرتے ہیں اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔[1] ان کے خلاف خروج جائز نہیں۔[2] بغاوتوں کے ساتھ تعامل کی بابت حسن بصری رحمہ اللہ کے منہج پر حاشیہ رقم کرتے ہوئے سید مودودی لکھتے ہیں : ’’آپ کو ان بغاوتوں کی افادیت میں شک تھا۔‘‘[3] یزید بن مہلب کی بغاوت اور شورش کو آپ بڑے دکھ کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ کیونکہ امام عادل امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یزید کی فساد انگیزیوں کے سبب اسے زنداں میں ڈال دیا تھا۔ اور اس لیے بھی کہ یزید غیر مامون آدمی تھا۔ اندیشہ تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کے اموال کا متولی بن گیا تو ان کو بے جا خرچ کرے گا۔ اور ان سے گل چھرے اڑائے گا۔[4] حسن بصری رحمہ اللہ کے نزدیک ابن مہلب کا غصہ نفسانی اور لذت کام ودہن کے لیے تھا۔ چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ سعد بن معاذ کی گردن پر سہارا لیے جامع مسجد گئے جہاں لوگ جمع تھے، آپ نے پوچھا، ’’کیا ان میں ہمارا کوئی آدمی ہے؟‘‘ تو آپ کو یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس مجمع میں آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی نہ تھا۔[5] اس وقت یزید بن مہلب منبر پر بیٹھا خطبہ دے رہا تھا۔ آپ نے کمال دلیری اور اظہار حق کا مظاہرہ کرتے ہوئے منبر کے قریب جا کر ابن مہلب کو بلند آواز کے ساتھ مخاطب کیا اور کہا: ’’اللہ کی قسم! ہمارے نزدیک تیرا والی بننا درست نہیں۔ جبکہ خود تیرے اوپر ایک والی موجود ہے (یعنی والی اور خلیفہ کے ہوتے ہوئے تیرا بغاوت کرنا درست نہیں)۔ پھر آپ نے اس سے بھی زیادہ جرأت کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ آپ باہر نکلے۔ جہاں لوگ دو صفوں میں بیٹھے یزید کے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے اور وہ سب یہ کہتے جا رہے تھے ’’حسن ہمیں عمرین کی سنت کی دعوت دیتا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ارے یہ وہی یزید تو ہے جو کل تک ان لوگوں کی گردنیں مارتا تھا جن کو تم دیکھ رہے ہو، پھر انہیں بنی مروان کی طرف بھیجتا تھا تاکہ ان کو مروا کر بنی مروان کی رضا حاصل کرے۔‘‘ پھر آپ نے مزید غصہ میں آکر کہا: میں نے ان کی مخالفت کی، تم بھی ان کی مخالفت کرو۔‘‘ پھر فرمایا میں تمہیں عمرین رضی اللہ عنہما (حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ) کی سنت کی دعوت دیتا ہوں۔ اور عمرین رضی اللہ عنہما کی سنت یہ ہے کہ اسے پابند سلاسل کر کے قید میں ڈال دیا جائے اور اسے لوہے کی زرہ میں رکھا جائے۔[6] پھر آپ نے بغاوت کے ساتھ اپنی اور بھی زیادہ نفرت اور کراہت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو!
[1] حیاۃ الحسن البصری ، از روضۃ الحضری، ص ۱۹۴۔ [2] حیاۃ الحسن البصری: ص ۱۹۴۔ [3] الخلافۃ والملک للمودودی: ص ۱۴۹۔ [4] حیاۃ الحسن البصری: ص۱۹۶۔ [5] تاریخ الطبری: ۷/ ۴۹۱۔ [6] وفیات الاعیان: ۳/ ۲۸۰۔