کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 351
’’آپ کا فوائد سے لبریز نصیحت نامہ ملا، میں نے اس سے اپنے دل اور نفس کی بیماریوں کا علاج تلاش کیا، آپ نے دنیا کا کس قدر ٹھیک حال بیان کیا ہے، سمجھ دار وہی ہے جو اس میں ڈر ڈر کر رہتا ہے جیسے اس دنیا کے ہر فرد کی لکھی موت اسے آہی گئی ہو… والسلام علیک ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ جناب حسن نے امیرالمومنین کے خط کو پڑھ کر کہا کہ ’’امیرالمومنین کی بھلائی اور خوبی اللہ ہی کے لیے ہے! کتنی سچی بات لکھی ہے اور کیسے انہوں نے نصیحت کو قبول کیا ہے، بے شک رب تعالیٰ نے ان جیسے آدمی کو مسلمانوں کا والی بنا کر ان پر عظیم احسان فرمایا ہے۔ اور ان کی سلطانی کو امت کے لیے باعث رحمت وبرکت بنایا ہے۔[1]اور اس خط کے جواب میں یہ جامع اور مختصر ترین نصیحت لکھ بھیجی: ’’امابعد! بے شک ایک عظیم ہولناک بات (یعنی جہنم) اور ایک مطلوب امر (یعنی جنت) آپ کے سامنے ہے، اور آپ کو ان دونوں باتوں کا مشاہدہ ضرور ہوگا، یا تو نجات کی صورت میں (جنت جا کر) یا پھر ہلاکت کی صورت میں (جہنم میں جاکر)۔‘‘ [2] ۷۔ حسن بصری رحمہ اللہ کے زمانے میں برپا ہونے والی بغاوتوں کے بارے میں آپ کا موقف حسن بصری رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی کہ فساد کو تلوار کے زور پر نہیں مٹایا جا سکتا، فساد تو توبہ اور رجوع الی اللہ اور اہل فساد کو نیک نصیحت کر کے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’اس شخص کا معاملہ کس قدر عجیب ہے، جو تلوار کے بل پر تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ تبدیلی تو توبہ کرنے سے آئے گی۔‘‘[3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء سے ناگوار امور دیکھنے پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’جس نے امیر میں کسی ناگوار بات کو دیکھا تو چاہیے کہ وہ (اس پر) صبر کرے کیونکہ تم میں سے جو بھی جماعت سے ایک بالشت بھی الگ ہونے کی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[4] ان جیسی احادیث میں غور کرنے کے بعد حسن بصری رحمہ اللہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایسے ظالم حکمرانوں کا عوام پر مسلط ہونا یہ ان پر رب کی سزا ہے اور ایسی صورت میں توبہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’اگر لوگوں کو سلطان سے کوئی آزمائش پیش آئے تو جب تک وہ حکمران رہتے ہیں عوام صبر کرے، یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے آسانی آجائے۔ لیکن یہ لوگ بے صبر ہو کر تلوار اٹھا لیتے ہیں اور اس پر اعتماد کر بیٹھتے ہیں، اللہ کی قسم! یہ کسی دن بھی کبھی کوئی خیر نہ لا سکیں گے۔‘‘[5] ابن اشعث کی بغاوت کے بارے میں حسن بصری رحمہ اللہ کی رائے کو ہم گزشتہ میں بیان کر چکے ہیں، آپ کی رائے یہ تھی کہ جب تک یہ حکمران جمعہ اور جماعت کو قائم رکھتے ہیں، اموال غنیمت کی حفاظت اور ان
[1] الزہد: ۱۶۹۔ [2] ایضًا [3] الطبقات الکبریٰ: ۷/ ۱۲۵۔ ۱۳۱۔ [4] صحیح البخاری، رقم: ۶۷۲۴۔ [5] شذرات الذہب: ۱/ ۱۳۷۔