کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 350
قسم! یہ زہر اس کی جان لے کر رہے گا، اس لیے اے امیرالمومنین! اس دنیا میں اس شخص کی طرح رہیے جو اپنے زخموں کی دوا دارو کرتے وقت کسی ایسی تھوڑی راحت کو لینے سے بھی اس ڈر سے احتیاط کرتا ہے کہ کہیں تھوڑی سی یہ راحت لمبی تکلیف کا باعث نہ بن جائے۔ اس کی مصیبت پر صبر کرنا یہ اس کی آزمائش میں مبتلا ہونے سے زیادہ سہل ہے، عقل مند وہ ہے جو اس سے بچے اور اس کی زیب وزینت پر فریفتہ نہ ہو کیونکہ یہ دنیا بے حد دغا باز دھوکے باز، فریبی، عیار، چالباز اور مکار ہے۔ یہ امیدوں اور دلاسوں کے ساتھ بن سنور کے سامنے آتی ہے، یہ اس سجی سنوری اور سولہ سنگھار کیے ہوئے دلہن کی طرح ہے جس کی طرف نگاہیں اٹھتی ہیں اور دل جس پر فریفتہ ہوتے ہیں، اس اللہ کی قسم! جس نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا! یہ دلہن اپنے خاوندوں کی قاتل ہے، اے امیرالمومنین! دنیا کے پچھاڑ دینے سے اور اس بات سے ڈریے کہ کہیں وہ آپ کو پٹخ کر نیچے نہ دے مارے، اور اس میں لغزش کھانے سے بچیے! اس کی آسودگی کے ساتھ سختی اور مصیبت ملی ہے، اس کی بقاء ہلاکت اور بربادی تک لے جانے والی ہے۔ اے امیر المومنین! جان لیجئے کہ دنیا کی امیدیں جھوٹی، اس کی آرزوئیں باطل، اس کی شفافیت گدلی، اور لذت وعیش بے فیض، منحوس اور تھوڑی ہے۔ اس کو چھوڑنے والا باتوفیق اور اس چمٹنے اور لپٹنے والا ہلاک اور غرق ہے۔ بے شک حاذق ودانا وہ ہے جو اس بات سے ڈرے جس سے اللہ نے ڈرایا ہے۔ اس سے بچے جس سے بچنے کا رب نے حکم دیا ہے اور دارالقضاء سے دارالبقاء کی طرف جانے کی تیاری میں لگ جائے۔ پس موت کے وقت اسے ہر بات کا یقین آ جائے گا۔ اے امیرالمومنین! یہ دنیا عقوبت کا گھر ہے، اسے وہ اکٹھا کرتا ہے جو نادان ہو، اس سے وہ دھوکا کھاتا ہے جو بے علم ہو۔ دانا وبینا وہ ہے جو اس دنیا میں اس شخص کی طرح رہتا ہے جو اپنے زخموں کے علاج کی خاطر کڑوی دوا پر صبر کرتا ہے کیونکہ اسے امید ہوتی ہے کہ یہ دوا اسے صحت دے گی خواہ کڑوی ہی ہے اور وہ دنیا کے انجام بد سے ڈرتا ہے۔ اے امیرالمومنین! اللہ کی قسم! یہ دنیا ایک خواب ہے اور بیداری تو آخرت ہے جبکہ موت اس خواب اور بیداری کے درمیان واسطہ ہے اور بندے ہیں کہ پراگندہ بکھرے بکھرے، بے تعبیرے اور پریشان خوابوں کے دیکھنے میں مست ہیں اے امیرالمومنین! میں اپکو وہی بات کہنے جا رہا ہوں جو کسی حکیم دانا نے کہی تھی: ’’اگر تم نے اس عظیم دن سے نجات پائی تو ٹھیک وگرنہ میرا نہیں خیال کہ تمہیں نجات مل گئی ہے۔‘‘ امیر المومنین سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو جب حسن بصری کا یہ خط پہنچا تو آپ اس کو پڑھ کر اس قدر روئے کہ حاضرین کو آپ پر ترس آنے لگا، پھر فرمایا: ’’اللہ حسن بصری پر رحم کرے! وہ ہمیشہ ہمیں خواب غفلت سے جگاتے ہیں اور لاپرواہی پر متنبہ کرتے ہیں۔ سبحان اللہ! حسن کیسے شفیق اور مہربان ہیں، کیسی دور کی نصیحت کرتے ہیں، کتنی سچی اور فصیح و بلیغ ہمدردی کرتے ہیں‘‘ آپ نے حسن بصری رحمہ اللہ کے خط کا یہ جواب لکھ بھیجا: