کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 35
میں بتلایا جاتا ہے۔ اور یہ ۱۰۱ ھ کا واقعہ ہے۔[1] (یوں آپ کا سن ولادت ۶۱ھ بنتا ہے)۔ بعض مصادر بتلاتے ہیں کہ آپ مصر میں پیدا ہوئے۔ مگر یہ قول ضعیف ہے کیونکہ آپ کے والد ماجد جناب عبدالعزیز بن مروان حکم۵۶ھ میں اس وقت مصر کے والی بنے تھے جب مروان بن حکم نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے عامل سے مصر کی ولایت چھین کر اس پر قبضہ کر لیا۔ اور اپنے بیٹے عبدالعزیز کو مصر کا والی بنا دیا تھا۔ اور تاریخی مصادر میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ مصر کی ولایت سنبھالنے سے پہلے عبدالعزیز کبھی مصر گئے ہوں ۔ آپ اور بنی مروان تو مدینہ میں رہتے تھے۔[2] علامہ ذہبی نے ذکر کیا ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ یزید کے دور میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اشج بني امیہ:…(اشج کا معنی ہے زخمی۔ یعنی وہ شخص جس کے سر، چہرے یا پیشانی پر زخم آیا ہو اور اب اس کانشان باقی ہو) [3] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کالقب اشج تھا۔ آپ ’’اشج بنی امیہ ‘‘ کے نام سے پکارے جاتے تھے ۔دراصل اس کا قصہ یہ ہے کہ آپ بچپن میں ایک دفعہ والد کے اصطبل میں گھوڑے دیکھنے کے لیے داخل ہوئے جب وہ مصر کے والی تھے کہ اچانک ایک گھوڑے نے لات مار کر آپ کا چہرہ زخمی کر دیا۔ آپ کے والد آپ کے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے یہ کہتے جاتے تھے کہ ’’اگر تم اشج بنی امیہ ہوتو تم یقینا نیک بخت ہو۔‘‘[4] جب آپ کے بھائی اصبغ نے آپ کے زخم کا نشان دیکھا توبے اختیار نعرہ تکبیر لگایا اور کہا: یہی وہ اشج بنی امیہ ہے جو بادشاہ بنے گا۔‘‘ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : ’’ میری اولاد میں ایک شخص ہوگا جس کے چہرے پر زخم کا نشان ہوگا۔ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا۔‘‘[5] دراصل جناب عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں اس بات کی طرف اشارہ کیاگیا تھا۔ پھر یہ خواب اوروں نے بھی دیکھا حتی کہ یہ بات زبان زد خلائق ہوگئی جس کی دلیل خود آپ کے والد عبدالعزیز کا وہ قول ہے جو انہوں نے آپ کے چہرے کا زخم صاف کر تے ہوئے کہا تھا جس کا ذکر اوپر ہوچکا۔ جبکہ یہی بات آپ کے بھائی اصبغ نے بھی کہی تھی۔ یہ دونوں اقوال نیک فالی کے طور پر تھے کہ شاید یہی وہ اشج ہو جو آگے چل کرزمین کو عدل سے بھر دے گا۔[6]
[1] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/۶۷۶ [2] الآثارالواردۃ عن عمر بن عبدالعزیز فی العقیدۃ :۱/۵۴ [3] دیکھیں : القاموس الوحید،ص: ۸۴۲۔ (مترجم) [4] البدایۃ والنھایۃ نقلا عن فقہ عمربن عبدالعزیز: ۱/۲۰ [5] المعارف،ص: ۳۶۲ از ابن قتیبہ [6] فقہ عمر بن عبدالعزیز،ص: ۲۰ ج ۱ از محمد شقیر