کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 349
السلام علیک یا امیرالمومنین ورحمۃ اللہ و برکاتہ[1] آئیے ذیل میں اس خط کے اہم اور بنیادی ورئیسی معانی کا قرار واقعی جائزہ لیتے ہیں: الف: ایک امام کی سب سے اہم صفت اس کا عادل ہونا ہے البتہ اس کا عدل پدرانہ شفقت اور مادرانہ رحمت کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ ب: لوگوں میں سب سے زیادہ جس کو اللہ کی حدود کی پیروی کرنی چاہیے وہ خود امام ہے۔ کیونکہ اگر امام حدود اللہ کی اتباع نہیں کرے گا تو رعایا تو بدرجہ اولیٰ حدود اللہ کی اتباع نہیں کرے گی۔ ج: امام قصاص دلواتا ہے، اس لیے اسے کسی کی ناحق جان لینے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں۔ کیونکہ قصاص میں لوگوں کی حیات ہے تو جو خود زندگی کو موت دے، وہ بھلا حیات کیسے فراہم کرے گا؟ ح: عوام کی اصلاح اور بگاڑ امام کی اصلاح اور بگاڑ پر موقوف ہے۔ پس ٹھیک جس وقت امام اپنے افعال کا جوابدہ ہوتا ہے، عوام کے افعال کا بھی جوابدہ ہوتا ہے۔ یہیں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پھر امام کی ذمہ داری، جوابدہی اور مسئولیت کس قدر بڑی ہوگی۔ س: یہ مسئولیت بالخصوص ولاۃ وامراء کی تعیین کے وقت کھل کر ظاہر ہوتی ہے۔ پس والیوں اور امراء کے ہر ہر عمل کا سب سے پہلے وہ امام جواب دہ ہے جس نے ان کو متعین کیا تھا۔ اس لیے امام پر واجب ہے کہ وہ متکبروں اور سرکشوں کو کمزوروں پر مسلط نہ کرے۔ دوسرے اس لیے بھی کہ غرور ونخوت رکھنے والے رب تعالیٰ کی حرمات کا ذرا پاس لحاظ نہیں رکھتے اور نہ وہ اپنے اعمال اور احکام میں رب تعالیٰ کی ذات کو سامنے رکھتے ہیں۔ لہٰذا اگر امام نے ایسے ہی سرکش، متکبر اور جابر ومستبد کو والی یا امیر بنا دیا تو امام اس کے بھی سب گناہوں کو اپنے کندھے پر اٹھانے کے لیے تیار ہو جائے۔[2] ۶۔ حسن بصری رحمہ اللہ کا سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے سامنے دنیا کا حال بیان کرنا حسن بصری رحمہ اللہ ایک خط میں دنیا کا حال بیان کرتے ہوئے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو لکھتے ہیں: ’’امابعد! اے امیرالمومنین! یہ دنیا کوچ کا گھر ہے اور یہ کسی حال میں بھی قیام کی جگہ نہیں۔ آدم علیہ السلام یہاں بطور سزا کے اتارے گئے تھے۔ اس لیے اس دنیا سے بچو، کیونکہ اس کو چاہنے والا، اسے چھوڑ جانے والا ہے، اس کا غنی تنگدست ہے۔ اس دنیا میں سعادت مند وہی ہے جو اس سے ذرا تعلق نہ رکھے، اگر ایک سمجھ دار اور باریک بین اس دنیا کا جائزہ لے تو اس کے سامنے یہ حقیقت کھل کر آئے گی کہ جو اس دنیا کو عزت دیتا ہے، یہ دنیا اسے ہی ذلیل کرتی ہے، جو اس کو جمع کرتا ہے، یہ دنیا اسے ہی بکھیر دیتی ہے، یہ زہر ہے جسے وہ کھاتا ہے جسے اس کے زہریلے ہونے کا علم نہیں اور اس میں وہی رغبت رکھتا ہے جو اس کی حقیقت سے ناآشنا ہے۔ اللہ کی
[1] الحسن البصری لابن الجوزی: ص ۵۶۔ [2] تاریخ التصوف الاسلامی: ص ۱۸۰۔